تحریر: محمد مبشر( لیہ)
بخاری شریف اور مسلم میں ہے کہ بنی اسرائیل کی قوم میں برص زدہ ، نابینا اور گنجے تین افراد رہتے تھے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانے کی خاطر ایک فرشتہ ان کے پاس بھیجا ۔ فرشتہ برص زدہ شخص کےپاس آیا اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ تمہیں سب سے پسندیدہ کون سی شے معلوم ہوتی ہے؟ اس نے جواب دیا: اچھا رنگ اور اچھی جلد، کیوں کہ لوگ مجھے گندا سمجھتے ہیں۔ فرشتے نےاس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا برص ختم ہوگیا اور پھر اس کو اچھا رنگ اور اچھی جلد بھی دے دی۔ فرشتے نے پھر پوچھا کہ کون سا مال تمہیں پسند ہے؟ اس نے جواب دیا مجھے اونٹ پسند ہے۔فرشتے نے اسے ایک قریب الولادت اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ اس میں برکت دے گا۔
فرشتہ اب گنجے شخص کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ کون سی چیز تمہیں پسند ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اچھے بال جو مجھ سے گنج پن ختم کر دیں کیونکہ لوگ مجھے بدصورت سمجھتے ہیں ۔فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا گنج پن ختم ہوگیا اور اس کے سرپر خوب صورت بال اُگ آئے ۔ پھراس سے پوچھا کہ تمہیں کون سا مال پسند ہے؟ اس نے کہا مجھے گائے پسند ہے۔ فرشتے نےاسے ایک حاملہ گائے دی اور کہا کہ اللہ اس میں برکت دے گا ۔
فرشتہ آخر میں نابینا شخص کے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اللہ میری بصارت لوٹا دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ بینا ہو گیا۔ اب فرشتے نے اس سے پوچھا کہ کون سا مال تمہیں پسند ہے ۔ اس نے کہا بھیڑ۔ فرشتے نے اسے ایک بھیڑ اور اس کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی دیا۔اس کے بعد اس کی بھیڑ نے خوب بچے دیے۔کچھ دن بعد یہ صورت حال تھی کہ اونٹ والے کے پاس اس کثیر تعداد میں اونٹ ہو گئے کہ اس کے اونٹوں سے پوری وادی بھر جاتی۔ گائے والے کی گائے سے پوری وادی بھر جاتی اور بھیڑبکری والے کی بکریوں سے پوری وادی بھر جاتی۔
کافی عرصے بعد وہ فرشتہ دوسری شکل وصورت کے ساتھ برص زدہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ضرورت مند ہوں، سفر میں مال و اسباب ختم ہو گئے، اب واپسی کا کوئی انتظام نہیں ہے، صرف اللہ سے امید ہے اس کے بعد تو ہی کچھ کر سکتاہے، میں تجھےاس ذات کاواسطہ دیتا ہوں جس نے تجھے اچھا رنگ اور خوب صورت جلد سے نوازا ہے اور تیرے پاس کافی مال و دولت بھی ہے تو مجھے صرف ایک اونٹ دے ،اس سے میں اپنا سفر جاری رکھ سکو ں گااور منزل تک پہنچ پاؤں گا۔ برص زدہ نے جواب دیا کہ میرے اوپر اور بھی بہت ساری ذمہ داریا ں ہیں۔فرشتے نے کہا کہ لگتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں ۔ کیا تمہیں برص کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تمہیں گندہ سمجھتے تھے؟ کیا تم فقیر نہیں تھے اس کے بعد اللہ نے تمہیں نوازا۔ اس نے جواب دیا کہ میں پشتوں سے امیر زادہ ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ پرانی حالت پر تمہیں دوبارہ لے جائے۔
فرشتہ اب گنجے کے پاس گیا اور اسی طرح رونے پیٹنے لگاجس طرح برص زدہ کے پاس جاکے کیا تھا۔ اس نے بھی برص زدہ کی طرح جواب دیا۔ فرشتے نےاسے بھی بد دعا دی اور کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ پرانی حالت پر تمہیں دوبارہ لے جائے۔
فرشتہ اب نابینا کے پاس شکل بدل کر گیا اور کہاکہ مسافر اور ضرورت مند ہوں ۔ زادراہ ختم ہو چکا ہے۔ واپسی کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ صرف اللہ سے امید ہے۔ تو کچھ کر سکتا ہے تو کر دے۔ میں اس ذات کا واسطہ دیتا ہوں جس نے تجھے بینائی واپس کی تو مجھے ایک بکری دے دے تاکہ میں اس کے ذریعے اپنا سفر جاری رکھ سکوں۔ اس شخص نے جواب دیا کہ بے شک میں نابینا تھا، اللہ نے مجھے بینائی واپس کی۔ میں فقیر اور محتاج تھا، اللہ نے مجھے مال دار بنادیا، لہذا اب تم جتنا چاہو مال لے لو میں تمہیں منع نہیں کروں گا۔فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، میں تو تم لوگوں سے امتحان لے رہا تھا ،اللہ تجھ سے راضی اور خوش ہے اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہو گیا۔
(تاریخ ابن کثیر جلد نمبر 1 سے انتخاب)