کومل ناصر (مظفر گڑھ)

کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جو ہم دیکھتے تو ضرور ہیں، لیکن ان کی تعبیر کے لیے ایک پر کٹھن راستہ عبور کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی ایک خواب میں نے اور میرے والدین نے دیکھا تھا۔ وہی خواب جو مجھے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ میری اندھیری راتو ں کو اْجالے عطا کرتا ہے، میرے شکستہ دل کو حوصلہ دلوانے کی عطا رکھتا ہے۔ اور مجھے اپنی ذات کے مقدم ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ خواب کی حقیقت بتانے سے پہلے میں آپ سے اپنا تعارف تو کرا دوں کہ میں کون ہوں؟ میں کومل ناصر ہوں، ایک دور افتادہ علاقے کی باسی، جنوبی پنجاب کی تحصیل علی پور کی بستی نلکا اڈا کی رہنے والی۔ ایک غریب اور محنت کش باپ کی بیٹی ۔ وہ باپ جو اپنی بیٹی کو پڑھا لکھا کر ایک اعلی مقام پر دیکھنا چاہتا تھا. میرے والد ایک ٹرک ڈرائیور تھے جو دن رات محنت کر کے ہمارے تعلیمی اخراجات کو پورا کر نے کی جدو جہد کرتے تھے لیکن یہ خواب اس وقت بکھر گئے جب ایک ٹریفک حادثے میں وہ ہمیشہ کے لیے ہمیں  روتا چھوڑ گئے۔ والد سے دائمی جدائی کا صدمہ وہی جانتے ہیں جو زندگی کی سرد و گرم کو تنہا جھیلتے ہیں. اب میں ایک یتیم بچی تھی، میری والدہ ایک ان پڑھ اور گھریلوخا تون تھیں لیکن دل میں یہ شدید خواہش رکھتی تھیں کہ میرے بچے تعلیم کو ترک  نہ کریں ۔ مایوسی کی اس اتھا ہ گہرائی میں شاید میں پرائمری کلاسز کے بعد اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکتی اور وہ خواب جو میں نے اور میرے والدین نے مل کر دیکھا تھا وہ میری آنکھو ں میں ہی دم توڑ دیتا۔ایسے میں میری والدہ کو قریب کی بستی میں قائم گورنمنٹ  گرلز ہائی سکول نلکا اڈا کا علم ہو ا ۔وہ میرا بازو تھامے سکول کی عمارت میں داخل ہوئیں اور میرا داخلہ کرا دیا اور وہاں سے آغاز ہو ا میرے خوابوں کی تکمیل کے پہلے مرحلے کا ۔میں نے اس سکول میں آکربغیر تعلیمی اخرجات کی فکر کے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا ۔لگن تھی تو صرف یہی کہ مڑ کر نہیں دیکھنا ، اپنے حالات اپنے ہاتھوں بدلنے ہیں، تعلیم ہی وہ ہتھیار ہےجو زندگی کی اس جنگ میں مجھے فتح دلائے گا۔

آج میں جماعت ہشتم کی طالبہ ہوں ۔میرے تمام اساتذہ خوابوں کی تعبیر کے اس سفر میں میرے ہم  قدم ہیں ۔مجھے اپنے اساتذہ کی محنت، اپنے والدین کی دعاؤں  اور اپنے جذبہ کامل پر پورا بھروسہ ہےکہ میں اپنی منزل پا لوں گی۔

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جا ئے

منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

شیئر کریں
23