فرزانہ رزاق (شہر سلطان)
میرا تعلق شہر سلطان ضلع مظفر گڑھ سے ہے۔ تعلیمی لحاظ سے یہاں پر طلباء و طالبات اور اساتذہ میں مسابقت کا رحجان پایا جاتا ہے۔ یہاں کے نجی تعلیمی اداروں میں بھی مقابلے کی فضا خاص طو ر پرنمایاں نظر آتی ہے۔ تعلیمی لحاظ سے ضلع مظفر گڑھ کے پبلک سکولز کے امتحانی نتائج ہمیشہ اچھے ہوتے ہیں اور ڈیرہ غازی خان تعلیمی بورڈ میں ہر سال پوزیشن بھی ہوتی ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے بہت سے غریب طلباء و طالبات اپنی خدا داد قابلیت کا استعمال نہیں کر پاتے ، پنجاب کے تمام سرکاری و پیف سکولون میں مفت نصابی کتابیں ملتی ہیں جو کہ حکومت پنجاب کا احسن قدم ہے مگر یہ نصاب انگلش میڈیم ہوتا ہے۔ طلباء و طالبات کو سکول میں دی گئی کتابوں میں سےنصف کتابیں استعمال کے قابل نہیں ہوتی کیونکہ اردو میڈیم کے حامل طلباء و طالبات کو دوبارہ والدین پر بوجھ بنتے ہوئے اردو میڈیم کورس بازار سے مہنگے داموں خرید نا پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں اکثر والدین اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔جب کہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی انگلش میڈیم کتابیں ردی کی زینت بنتی ہیں۔
امام غزالی، ابن خلدون، جان ڈیوی اور ارسطو جیسے مفکرین نے تعلیمی اصلاحات میں اس بات پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے جس سے اس میں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور آئندہ کے لیے تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں مگر ہمارے یہاں صدیوں سے کی جانے والی تحقیق کو نظر انداز کر کے کے جی جماعت سے ہی بچوں کو مادری زبان تو دور کی بات، قومی زبان اردو کو بھی کم اہمیت ملتی ہے اور نصاب کا خاص فوکس غیر ملکی زبان ہے جس میں طلباء کو تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ بہت سے بچے صرف انگریزی کی وجہ سے تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر اگر نظر ڈالی جائے جیسا کہ چین، فن لینڈ، برطانیہ، جرمنی اور روس وغیرہ، تو ان سب کی تعلیم ان کی قومی زبان میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بچے بہتر سیکھ پاتے ہیں اور پاکستان میں بچوں پر دو زبانوں کا مزید بوجھ پڑنے کی وجہ سے ایک تو ذہنی صلاحیتیں دب جاتی ہیں دوسرا معاشرہ میں قوم بنانے کے اصرار پر وہ صرف رٹا لگا کر اپنی ذہانت منوانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ سرکاری سکولوں میں انگریزی کی بجائے اردو میڈیم نصابی کتابوں کی فراہمی ممکن بنائیں ۔