سدرہ فاروق (ملتان)

   استاد اور شاگرد کا رشتہ روحانی رشتہ ہے۔ استاد کا ادب و احترام ہر طالب علم پر لازم ہے۔ استادکے ادب اور احترام کو طالب علم کے لیے کامیابی کی پہلی سیڑھی بتایا گیاہے ۔ تقریباً پوری دنیامیں استاد کو ہر زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہاہے ۔ استاد اس ہستی کا نام ہے جواپنے شاگردوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے اور ان کی اخلاقی تربیت کر کے معاشرےمیں ایک اعلیٰ   مقام تک پہنچاتا ہے۔ استاد طلبہ کی شخصیت سازی اور کردار سازی میں اہم کردارادا کرتا ہے۔ استاد کی اہمیت اور اس کے مقام ومرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون مددگار ثابت ہوتا ہے۔ استاد ہر ایک طالب علم کو ویسے ہی سنوارنے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسے ایک سنار دھات کے ٹکڑے کو سنوارنے پر قادر ہوتاہے۔ استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنانے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ استاد علم کے حصول کا برا ہ راست ذریعہ ہے،  اس لیے استاد کی تکریم کا حکم دیا گیاہے۔تاریخ کی کتابوں میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ان کے دربار میں جب کسی عالم دین کی تشریف آوری ہوتی تو ہارون رشید ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے ۔ ہارون الرشید کے اس فعل پر ان کے در باریوں نے کہا کہ آپ کے اس فعل سے سلطنت کا رعب جاتارہے گا تو ہارو ن الرشید نے اس پر جواب دیا کہ اگرعلمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو چلا جائے ۔

مشہور فلسفی، مفکر اورماہر منطق ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ استاد کا بے حد احترام کرتا تھا ۔ کسی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو سکندر نے جواب دیا :میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پرلایا جب کہ میرا استا د ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا ،میرا باپ باعث حیات فانی ہے اور استاد موجب حیات جاوداں ۔ میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری  روح کی۔ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ علم بغیر ادب کے نہیں آسکتا۔

موجودہ دور میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کے اساتذہ کے ساتھ غیر شائستہ رویہ کی وجوہات کا جائزہ لیاجائے تو چند اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ تربیت ہوتی تھی، اساتذہ اخلاص اور صدق دل سے طلبہ کو تعلیم کے نور سے منور کرتےتھے اور ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت پر زور د یتے تھے تو اساتذہ کا وہی اخلاص طلبہ میں منتقل ہوتا تھا اور وہ اپنے اساتذہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی عزت و توقیر اور ان کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھےلیکن جب سے تعلیمی ادارے تجارتی منڈیوں میں تبدیل ہوئے اور تعلیم کو تجارت کے طور پر استعمال کیا گیا توتعلیمی اداروں میں تعلیم کی روح ناپید ہوئی، تربیت کا فقدان آیا اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے لگے تواس کا نتیجہ یہ نکلا کہ استاد جیسی عظیم ہستی سے ناروا سلوک شروع ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں سمیت تقریبا ہر قسم کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی بے ادبی کے واقعات رو نماہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اب اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم کی صرف رسم باقی رہ گئی ہے اور طلبہ کی تربیت کا بھی کوئی سلسلہ نہیں رہا۔تعلیمی اداروں کی اصلاح  وقت کا تقاضا ہے ۔ اس کی اصلاح میں اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

شیئر کریں