وفا دار ہاتھی اور رحم دل بادشاہ

عروہ بتول محفوظ (بہاول پور)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گھنے جنگل میں ایک ہتھنی اپنے بچے کے ساتھ ہنسی خوشی رہتی تھی۔ ہاتھیوں کو پانی میں کھیلنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ ایک دن ہاتھی اور ہتھنی نہانے کی غرض سے ندی کے کنارے گئے۔ ندی میں وہ دونوں داخل ہوئے تو اس دن ندی میں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ ہتھنی کابچہ پانی کے تیز بہاؤ کا شکار ہو کر پانی کی روانی میں بہنے لگا۔ ہتھنی نے بڑی کوشش کی مگر وہ اپنے بچے کو نہ بچا سکی۔ ہاتھی کا بچہ بہتا ہوا دور ندی کے کنارے جا لگا جہاں اس علاقے کے بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا۔ سپاہی ہتھنی کے بچے کو لے کر بادشاہ کے پاس پہنچے۔ بادشاہ کو ہاتھی کا بچہ بہت اچھا لگا، اس نے اس کو اپنا پالتو بنا لیا اور اس سے پیار کرنے لگا۔ دونوں کی دوستی اور محبت بڑھتی چلی گئی۔ بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ اس ہاتھی کے بچے کو جنگ میں کام لانے کے لیے سدھایا جائے ۔ ایک ماہر کی خدمات لی گئیں جس نے اس کو جنگ میں کام آنے والی مہارتیں سکھا دیں۔ یہ اب بادشاہ کا بہت بڑا ہتھیار بن گیا۔ دشمن کی صفوں میں ہاتھی گھس کر ان کی صفوں کو تہس نہس کر دیتا۔ اس طرح بادشاہ دشمن پر فتح حاصل کر لیتا۔ دن گزرتے گئے ہاتھی بھی عمر رسیدہ ہوتا گیا ۔ اس کی بینائی بھی کمزور ہو گئی تھی۔ اب وہ جنگ و جدل میں زیادہ جوہر نہیں دکھا سکتا تھا لیکن اس کا جذبہ ہمیشہ دیدنی ہوتا تھا ۔ ایک دن اپنی کمزور بینائی کے سبب کیچڑ میں پھنس گیا۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے پوری طاقت لگائی مگر وہ اسے نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر بادشاہ کے علم میں آیا تو اس نے حکم دیا کہ جنگ میں بجنے والا طبل بجاؤ، اس سے اس کا جذبہ بحال ہو جائے گا اور یہ کیچڑ سے باہر نکل آئے گا۔ سپاہیوں نے طبل جنگ بچایا۔ جب ہاتھی نے سنا تو اس کا جذبہ بڑھا اور میدان جنگ میں دکھائے جانے والے جذبہ کے تحت اپنے جذبے کو جوان کر کے ہمت اور زور آزمائی کی۔ اس کی ہمت کامیاب ہوئی اور وہ کیچڑ سے باہر نکل آیا۔ بادشاہ نے اپنے پیارے دوست ہاتھی کے کیچڑ سے نکلنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پیارے بچو! ہم بھی اپنی محبت اور پیار کی بدولت جانوروں کے دل بھی جیت سکتے ہیں اور وہ بھی ہمارے لیے اپنے وفاداری کے جوہر دکھا سکتے ہیں۔

شیئر کریں
2196
35