اکتوبر کے شمارے کے مواد کا جائزہ لینے اور اداریہ لکھنے بیٹھا تو مسئلہ آپ کا، حل ہمارا میں کچھ ایسے سوالات نظر سے گزرے کہ سوچ کا زاویہ ہی تبدیل ہو گیا۔ پہلے تو اس بات کی خوشی ہوئی کہ بچے روشنی پر اب اس قدر اعتماد کرنے لگے ہیں کہ اپنے اہم ترین مسائل بھی ہمیں لکھ کر بھیجے لگے ہیں۔ ان میں سے کچھ مسائل تو ایسے تھے جو صرف بھیجنے والے سے متعلق نہیں تھے بلکہ ان جیسے بہت سے بچوں کو ان مسائل کا سامنا تھا۔
ایک بچہ کہنے لگا کہ اس کے دوست اسے سگریٹ نوشی پر مجبور کرتے ہیں اور وہ انہیں ناں نہیں کرپاتا۔ ایک بچے نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو ون ویلنگ کرنے سے نہیں روک پاتا اور موت سے کھیلتا ہے۔ ان کے جواب دینے بیٹھا تو دل چاہا کہ صفحے پر صفحہ بھر دوں۔ آخر ہم اپنے بچوں کو نہیں سمجھائیں گے تو کون سمجھائے گا؟ بلکہ ان جیسے مسائل کے مضمرات پر جس قدر بھی بات کریں، شاید کم ہے۔
اچھا ہے کہ بچوں نے ہم سے بات کرنا شروع کی ہے۔ اگر یہ موضوعات گھروں اور سکولوں میں ہماری گفتگو کا حصہ بننا شروع ہو جائیں تو شاید بہت سے بچے بہکنے سے بچ جائیں، بہت سی زندگیاں بچ جائیں۔
سکولوں میں اساتذہ کو، گھروں میں بڑوں کو بھی اپنے بچوں سے ان موضوعات پر کھل کر بات کرنا ہو گی۔ محض کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے بلی چلی تو نہیں جائے گا۔
پیارے بچو! آپ بھی ان کے سوالوں کے حوالے سے ہمارے جواب پڑھیے اور اپنے ہم جماعتوں، دوستوں کے علم میں لائیے۔ جلدی کیجیے گا، کیونکہ یہ صحت اور زندگی کا معاملہ ہے۔