چیونٹی وار (قسط نمبر 2)

اشتیاق احمد

گزشتہ سے پیوستہ: اُف! یہ یہاں بھی موجودہے،کمال ہے۔محمودبولا۔

ٹھہروبھئی……میں اسے زندہ پکڑوں گا۔انسپکٹر جمشید نے جیب سے اسٹیل کی ایک چھوٹی سی ڈبیانکالی اورڈبیاکوکھول کرچیونٹی کواس میں ڈالنا چاہا۔ ایسا کرنے  کے لیے انھوں نے چابی کا سہارا لیا۔  ڈبیا کو کار کے میٹ پر رکھا، اس کا سرانیچے لگایا اور چابی سے چیونٹی کودھکا دیا۔

وہ ڈبیامیں چلی گئی۔ انھوں نے ڈبیاکوبندکردیا،لیکن دوسرالمحہ حیران کُن تھا۔چیونٹی فوراً ہی ڈبیاسے نکل آئی اوراب ڈبیامیں ایک عدد سوراخ تھا۔وہ چندلمحے ڈبیاپربیٹھی رہی،پھرکارکے شیشے سے سوراخ کرتی ہوئی باہرنکل گئی۔ انھوں نے دیکھاوہ اڑکرگئی تھی۔

یہ……یہ چیونٹی نہیں۔انسپکٹرجمشیدچلائے۔

جی……چیونٹی نہیں توپھر……؟

عین اسی وقت انھوں نے شوں کی آواز سنی۔

یہ توٹائرمیں سے ہوانکل رہی ہے۔

وہ ابھی ہماری بھی ہوانکالے گی۔فاروق نے براسامنہ بنایا۔

کیا مطلب۔۔۔ کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہ کام چیونٹی کا ہے، یعنی ٹائر میں اس نے سوراخ کیا  ہے؟  فرزانہ بولی۔

تواورکیا……میں نے کیاہے۔ اس نے آنکھیں نکالیں۔

دھت تیرے کی……تم میں یہ طاقت کہاں؟محمودنے جھلاکراپنی ران پر ہاتھ مارا۔

وہ کارسے نیچے اترے ہی تھے کہ انھوں نے دوسرے ٹائرکی ہوانکلنے کی آوازسنی۔

اب کم ازکم ہم اپنی کارمیں ہوٹل تک جانہیں سکتے۔

خیرکوئی بات نہیں …… اسے ٹائروں پرزور آزمائی کرنے دو، آؤ ہم ٹیکسی میں چلیں۔

انسپکٹر جمشید بولے۔

لیکن آپ تواس کوزندہ پکڑنے کی بات کررہے تھے۔فرزانہ نے گویایاددلایا۔

ہاں! کر تو رہا تھا لیکن اب اس کوتلاش کرنے میں وقت ہی ضائع ہو گا،جب کہ وہ ہمارا وقت ہی ضائع کرنے پرتلی ہوئی ہے۔

حیرت ہے، اس کوبھی تلنے کی ضرورت پیش آگئی۔فاروق نے کہا۔

انھوں نے گاڑی کو بند کردیااورٹیکسی میں ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے،لیکن فوراًہی اس ٹیکسی کابھی ٹائر پنکچر ہوگیا۔

اوہ معاف کیجیے گاجناب……ٹائرپنکچرہوگیا

کوئی بات نہیں …… اس میں معافی مانگنے کی کیابات؟یہاں تک کاکرایہ لے لیں۔ ہم کوئی اور ٹیکسی پکڑلیتے ہیں۔

ابھی صرف پانچ منٹ میں ٹائرچڑھالوں گا۔

چڑھاتولیں گے، لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دوسراٹائرپنکچرنہیں ہوجائے گا۔

جی کیامطلب؟ایساکس طرح ہوسکتاہے؟ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔

پہلی بات تویہ بڑے بھائی کہ ہونے کواس دنیامیں کیانہیں ہوسکتا۔ دوسری بات یہ کہ ابھی ابھی ہماری اپنی کارکے دوٹائریکے بعددیگرے فوت…… میرامطلب ہے…… پنکچر ہوئے ہیں۔ عین اسی وقت شوں کی آوازسنائی دی۔

لیجیے آپ کابھی ایک ٹائراورگیا۔ اب توآپ ہمیں پانچ منٹ بعدنہیں لے جاسکیں گے۔ فاروق نے ہنس کرکہا۔

نن……نہیں!وہ حیران ہوکربولا۔

سو روپے اس کے ہاتھ میں تھماکروہ آگے بڑھے اورایک اورٹیکسی روکی۔

ہوٹل شان چلوبھئی

اوکے سر!اس نے کہااورٹیکسی آگے بڑھادی، لیکن ابھی چندلمحے ہی ٹیکسی چلی ہوگی کہ پھر شوں کی آوازنے ان کا استقبال کیا۔

لوبھئی!ٹائرپنکچرہوگیا۔

کوئی بات نہیں سر!……میں ابھی ٹائرچڑھادیتاہوں۔اس نے کہا۔

مشکل ہے!آپ ہمیں اجازت ہی دے دیں۔اسی میں آپ کا بھلا ہے۔فاروق نے کہا۔

جی کیامطلب؟اس کے لہجے میں حیرت تھی۔

اگرآپ نے ہمیں اجازت نہ دی توپھرآپ کادوسراٹائربھی پنکچرہوجائے گا۔

یہ کیابات ہوئی اورایسا کیسے ہوسکتاہے؟

یہ بات بھی ہوئی ہے اوریہ ہوبھی سکتاہے،لیکن بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی، لہٰذا یہ لیں سو روپے اورہم چل دیے۔

ارے……ارے……رکیے صاحب! آپ سو روپے کیوں دے رہے ہیں؟

تواورکیادیں؟انسپکٹرجمشیدبولے۔

ابھی توآپ نے چندمیٹرفاصلہ طے کیاہوگا۔آپ یہ سو روپے واپس لے لیں۔

اس کامطلب ہے ابھی شہرمیں اچھے ڈرائیورموجودہیں۔

عین اسی وقت پھرشوں کی آوازسنائی دی۔

دیکھاہم نے کیا کہاتھا

یہ……یہ کیاہوا……؟بھلایہ کیسے ہوسکتاہے

یہ ہوسکتاہے……یہاں کچھ فاصلے پر ہماری کار کھڑی ہے۔ اس کے دو ٹائر پنکچر ہیں۔ اس کے بعد ذراکم فاصلے پرایک ٹیکسی کھڑی ہے۔ اس کے بھی دو ٹائر پنکچر ہیں اوراب یہ آپ کی ٹیکسی کھڑی ہے، اس کے بھی دوٹائر پنکچر ہیں اور اگر ہم نے کوئی اورٹیکسی روکنے کی کوشش تواس کے بھی دوٹائر پنکچرہوجائیں گے۔ گویا اب ہمیں پیدل ہی ہوٹل شان تک جاناہوگا۔

پپ……پیدل…… لیکن جناب وہ تو ساحل سمندر پر واقع ہے اور ساحل سمندر یہاں سے بیس کلومیٹردورہے۔اس نے بوکھلاکرکہا۔

تب پھرآپ ہی بتائیں ……ہم کیاکریں؟

ایک ٹیکسی اورپکڑلیں کیوں کہ یہ ایک اتفاق توہوسکتاہے اورضروری نہیں کہ چوتھی گاڑی کے ساتھ بھی وہ اتفاق ضرورہو۔

ہوں خیر……ہم آپ کامشورہ بھی مان کردیکھ لیتے ہیں،لیکن آپ نہیں جانتے، ہمارا واسطہ ایک عددچیونٹی سے اس وقت پڑاہواہے۔

جی کیافرمایا……چیونٹی سے؟

ہاں! کل تک یہ ساراشہراس چیونٹی سے خوف زدہ نظرآئے گا،فکرنہ کریں۔

پتانہیں آپ کیاکہہ رہے ہیں؟

آپ اخبارپڑھتے ہیں؟فاروق نے کہا۔

کبھی کبھی۔اس نے فوراًکہا۔

اچھا کرتے ہیں کبھی کبھی پڑھتے ہیں۔جوروزپڑھتے ہیں وہ تومصیبت مول لیتے ہیں جیسے ہم لے چکے ہیں۔ نہ ہم اخبارمیں اس چیونٹی کے بارے میں پڑھتے نہ چیونٹی ہمارے…… ارے……! فاروق کہتے کہتے رک گیا۔

کیوں کیاہوا……اوٹ پٹانگ کی باتوں کی گاڑی رک کیوں گئی؟

مجھے ابھی ابھی ایک خیال آیاہے،اوروہ یہ ہے کہ اگرہمارے ساتھ یہاں یہ ہورہاہے توہمارے گھرمیں کیانہیں ہورہاہوگا

اوہ……اوہ……!ان کے منہ سے نکلا۔پھرانسپکٹرجمشیدایک دکان میں گھس گئے۔ انھوں نے پریشانی کے عالم میں گھرفون کیا۔

دوسری طرف فوراً ہی بیگم جمشیدکی آوازسنائی دی اور پھران کی آواز سن کرتوانھوں نے چیخ کرکہا

فوراًگھرآجائیے……!ان الفاظ کے ساتھ ہی ریسیوررکھ دیاگیا۔

٭٭٭٭٭

اُدھربھی گڑبڑہے۔اب ہم ہوٹل شان پھرکسی وقت جائیں گے۔پہلے اپنے گھرکی خبرلیتے ہیں۔انھوں نے جلدی جلدی کہا۔

یااللہ رحم……!آخریہ سب ہوکیارہاہے؟فرزانہ نے بوکھلا کرکہا۔

آؤجلدی کرو!انسپکٹرجمشیدایک ٹیکسی کی طرف لپکے۔

لیکن! ٹیکسیاں توپہلے ہی بے کارہوتی جارہی ہیں۔محمودبولا۔

شاید گھر کی طرف جانے والی گاڑی کووہ بے کار نہ کرے۔

 انسپکٹر جمشید نے خیال ظاہر کیا اوروہ ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ اس بارکچھ نہ ہوااوروہ گھرکے سامنے پہنچ گئے،لیکن یہاں ان کے لیے حیرت ہی حیرت تھی۔ بیگم جمشیداوراکرام باہرکھڑے نظرآئے۔ اکرام کے کچھ ماتحت بھی پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے۔اکرام کے دائیں ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا۔

کیاہوا؟

ہماراگھرگررہاہے……لائبریری کی تمام کتابیں کھوکھلی ہوچکی ہیں اور اب چھتوں کی باری آچکی ہے پہلے ایک چھت گری تھی،ہم فوراًباہرنکل آئے۔ابھی تھوڑی دیرپہلے ہم نے دوسری چھت گرنے کی آوازسنی ہے۔

اللہ اپنارحم فرمائے!اندرتوبہت اہم کاغذات بھی موجود ہیں۔

لیکن سر! ہم کیاکرسکتے ہیں؟ کسی نظرآنے والے دشمن سے توہم لڑہی سکتے ہیں، لیکن نہ نظرآنے والی طاقت کے خلاف کیاکریں؟آخرہم اس گھرکوتباہ ہونے سے کس طرح بچائیں؟اکرام نے جلدی جلدی کہا۔

تم ٹھیک کہتے ہو!لیکن میں اندرجاکرکاغذات کوبچانے کی کوشش ضرورکروں گا۔

نہیں، نہیں سر……!آپ اس طرح بہت بڑاخطرہ مول لیں گے۔اکرام چلایا۔

تم نہیں جانتے…… وہ کاغذات کس قدرقیمتی ہیں۔

یہ کہہ کرانھوں نے اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔

رک جائیے ابا جان! …… رک جائیے

فرزانہ نے چلا کر کہا، لیکن انھوں نے جیسے اس کی آوازسنی تک نہیں، وہ اندرگھس گئے۔

اب ہم یہاں کھڑے رہ کر کیا کریں گے……ہم بھی اندرچلتے ہیں۔ محمودنے کہا۔

حماقت نہ کرو……ہم ان کی کوئی مددنہیں کرسکیں گے اورالٹاان کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔فرزانہ نے جلدی جلدی کہا۔

میں بھی یہی کہوں گا کہ آپ لوگ اندرنہ جائیں!اکرام نے کہا۔

ہرگزنہیں!کم ازکم میں نہیں رک سکتا۔محمودنے کہااوردوڑلگادی۔

تب پھرمیں رک کرکیاکروں گا؟فاروق نے کہا۔

میں بھی آرہی ہوں ……فاروق!فرزانہ بولی۔

یہ پاگل پن ہے!اکرام بڑبڑایا۔

انھیں نہ روکو اکرام! یہ نہیں رک سکتے۔

بیگم جمشیدکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

 عین اسی وقت دھڑام کی آواز آئی،گویا ایک اور دیوار یا چھت گری تھی۔

 انسپکٹرجمشید سیدھے اس الماری کی طرف گئے،جس میں وہ کاغذات تھے۔ انھوں نے دیکھا……الماری راکھ کاڈھیربن چکی تھی اور فائلوں کاکہیں نام و نشان  تک نہیں تھا۔ وہ واپس مڑے۔دوسری طرف محمود،فاروق اورفرزانہ آرہے تھے، عین اس وقت ان پرایک شہتیرگرا۔انھوں نے اس سے بچنے کے لیے چھلانگیں لگا دیں اوراوندھے منہ گرے،کیونکہ اسی وقت ایک دیوار ان پر گری تھی۔ انسپکٹر جمشید نے ایسے میں بھی حوصلہ نہ ہارا،جلدی جلدی وہ اینٹیں ہٹاتے چلے گئے۔

تم لوگ ٹھیک توہو؟انھوں نے کہا۔ابھی تک وہ اینٹوں کے نیچے دبے ہوئے تھے۔

ہاں اباجان! بس ہم دب گئے ہیں …… یہ…… یہ ہمارا گھر…… ہمارے گھر کو کیا ہو گیا اباجان!فاروق بولا۔

کسی کی نظرلگ گئی ہے بیٹے!وہ بولے۔

بلا کی رفتارسے وہ اینٹیں ہٹاتے چلے گئے۔انھیں ڈرتھاکہ کہیں کوئی اور دیوار وغیرہ نہ آگرے،جس جگہ وہ گرے تھے اس جگہ کی چھت ابھی محفوظ تھی،لیکن کسی دَم بھی گرنے والی تھی۔ اس کے گرنے سے پہلے پہلے انھیں نیچے سے نکالنے میں کامیاب ہوناضروری تھا۔ آخر سب سے پہلے محمودنیچے سے نکلا،اوراس نے بھی ان کی مددشروع کردی،پھرفاروق نکلا۔اب وہ فرزانہ پرسے اینٹیں ہٹارہے تھے۔

اباجان……وہ……وہ چھت!انھوں نے نظریں اوپراٹھائیں،چھت چلی آرہی تھی۔

یااللہ رحم!انسپکٹرجمشیدنے کہااورفرزانہ پرجھک گئے۔

تم دونوں باہرکی طرف دوڑلگادو

ہم……ہم

جاؤ!وہ غرائے۔

دونوں باہرکی طرف دوڑ گئے،عین اس وقت چھت ان پر آگری، لیکن وہ دیوارمیں اَڑکرگری تھی۔اس لیے ترچھی گری اوران کے جسم کونہ چھوسکی۔اب چھت ان سے صرف چندمیٹراوپراٹکی ہوئی تھی۔وہ اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔انھوں نے اسی حالت میں لیٹے لیٹے فرزانہ پرسے اینٹیں ہٹاناشروع کیں اورآخرفرزانہ رینگنے کے قابل ہوگئی۔دونوں رینگتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔اُدھرسے اکرام اوراس کے ماتحت، محمود اور فاروق  چلے آرہے تھے۔

اندرآنے کی ضرورت نہیں۔

انسپکٹرجمشیدچلائے۔جونہی وہ باہر نکلے، پورا مکان دھم سے آگرا۔

٭٭٭٭٭

دوسرے دن کے اخبارات سنسنی خیزخبروں سے بھرے پڑے تھے۔ چیونٹی نے سب سے پہلے سیٹھ شوکت شاری کی کوٹھی کوتباہ کیاتھا۔آگ لگادی تھی۔اس کے بعدانسپکٹرجمشیدکی گاڑی کوتباہ کیاتھا۔ان کی گاڑی اورتین ٹیکسیاں سڑک پرصرف ڈھانچے کی صورت میں ملی تھیں اورتیسرانشانہ ان کااپناگھربناتھا۔وہ اِس وقت خان رحمان کے گھرمیں موجودتھے اورپروفیسر داؤد بھی شائستہ کے ساتھ وہیں آگئے تھے۔

ہماراسیٹھ شوکت سے ملناضروری ہے۔آخرسب سے پہلے چیونٹی نے انھیں کیوں نشانہ بنایا؟ ہمیں توخیرراستے سے ہٹانے کے لیے ایسا کیا گیا ہو گا۔

 انسپکٹرجمشید کہہ رہے تھے۔

لیکن جمشید! ہم وہاں کس طرح جاسکتے ہیں؟ایک گاڑی توپہلے ہی تباہ کراچکے ہیں۔ ایک گھر بھی۔اب جس گاڑی میں بھی تم نکلوگے،وہی تباہ ہوجائے گی۔

اس طرح توہم اس کیس میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہ جائیں گے۔

توپھرہم کرہی کیاسکتے ہیں؟

ہم ……ہم اپنی عقل سے کام لے سکتے ہیں۔

عقل سے……ہاں واقعی ……عقل بے چاری کوتوہم بھول ہی گئے۔ فاروق نے خوش ہوکرکہا۔

بھولے ہوگے تم ……ہم ہرگزنہیں بھولے۔

توپھرلڑائیے عقل!محمودمسکرایا۔

یہ کام فرزانہ کرے گی۔فاروق نے فوراًکہا۔

پہلے توآپ فون پراُن سے بات کرلیں۔فرزانہ نے کہا۔

ہاں!……یہ ٹھیک رہے گا۔

انھوں نے ہوٹل شان کے نمبرملائے اورپھرہوٹل کے آپریٹر سے سیٹھ شوکت کے کمرے کانمبرملانے کے لیے کہا۔جلد ہی سیٹھ شوکت کی آوازسنائی دی: ہیلو! جی ہاں!سیٹھ شوکت شاری بول رہاہوں۔

اورمیں انسپکٹرجمشیدہوں۔

اوہ!میں آج کااخبارپڑھ چکاہوں۔

ہم کل آپ سے ملنے کے لیے ہی آرہے تھے۔جب گاڑیاں اورٹیکسیاں برباد ہونا  شروع ہوئیں اورپھرہمیں اپنے گھرمیں گڑبڑکی اطلاع ملی۔

یہ سب کیاہورہاہے انسپکٹرصاحب

ہم اس کیس پرکام شروع کرچکے ہیں۔آپ فکرنہ کریں۔آپ مجھے صرف یہ بتادیں کہ آپ کادشمن کون ہے؟کون یہ حرکت کرسکتاہے یاکسی سے کرواسکتاہے؟

خان جابر!انھوں نے فوراً کہا۔

خان جابر……یہ کون ذات شریف ہیں؟ان کے لہجے میں حیرت تھی۔

انھیں مجھ سے خداواسطے کابیرہے۔پتانہیں! اُسے مجھ سے کیا دشمنی ہے۔ اعلانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ میں سیٹھ شوکت کابدترین دشمن ہوں اورایک دن اس کابیڑاغرق کرکے چھوڑوں گا۔

یہ صاحب ہیں کون……؟کیاکرتے ہیں؟

جاگیردارہے بہت بڑا……ہزاروں ایکڑزمین ہے۔

تب توواقعی بہت بڑاآدمی ہوگا۔

کوئی ایساویسا……! ہزارہاتواس کے مزارعے ہیں،انھیں اشارہ کرے تومجھ جیسے کوتووہ روندڈالیں۔

کیوں ……کیاآپ کے پاس ہزارہاکارکن نہیں ہیں؟

کارخانوں میں کام کرنے والے اپنے مالکوں کے لیے جانیں بہت کم دیتے ہیں۔ ہاں! مزارعے لوگ یہ کام فوراً کرگزرتے ہیں۔

اچھی بات ہے،گویاآپ یہ نہیں بتاسکتے کہ یہ حضرت آ پ کے دشمن کیوں ہیں؟

نہیں ……میں نہیں بتاسکتا……شایدانھیں خودبھی معلوم نہ ہو۔سیٹھ شوکت بولے۔

آپ کاخیال ہے ……وہ چیونٹی، خان جابرکی طرف سے تھی؟

میں یہ نہیں کہہ سکتا،لیکن یہ چکراس کاچلایاہواضرورلگتاہے۔

ہوں!ہم ان سے ملیں گے، آپ فکرنہ کریں اوراگریہ چیونٹی کاچکراُن کا چلایا ہوا ہے توپھروہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظرآئیں گے، خواہ وہ کتنے ہی بڑے آدمی کیوں نہ ہوں۔

دیکھ لیجیے……آپ بہت بڑادعویٰ کررہے ہیں۔اس شخص کوجیل کی سلاخوں کے پیچھےدھکیلناناکوں چنے چباناہوگا۔

آپ فکرنہ کریں، ہم تولوہے کے چنے چبالیتے ہیں، ناکوں چنے چبانا ہمارے لیے مشکل نہیں ہوگا۔

جس روز وہ شخص جیل جائے گااس روزمیں گھی کے چراغ جلاؤں گا۔

سیٹھ شوکت شاری نے کہا۔

مشکل ہے جناب!فاروق نے کہا۔

کیامشکل ہے؟

گھی کے چراغ جلانا،اب وہ زمانہ نہیں رہا،جب لوگ گھی کے چراغ جلالیاکرتے تھے۔

کیوں کیوں ……؟ایسی کیابات ہوگئی؟سیٹھ شوکت نے حیران ہوکرکہا۔

دیسی گھی ملتاہی کہاں ہے کہ آپ چراغ جلائیں گے۔

آپ فکرنہ کریں ……میرے پاس بہت بھینسیں ہیں۔اُنھوں نے براسامنہ بنایا۔

فاروق چپ رہو!یہ تم کیالے بیٹھے؟انسپکٹرجمشیدنے اسے ڈانٹا۔

اس میں بس یہی بری بات ہے اباجان!بات بے بات بے تکی شروع کر دیتا ہے۔

محمود مسکرایا۔

ایک آدھ مرتبہ اورلفظ بات گھسیڑدیتے جملے میں۔فاروق نے اسے گھورا۔

یہ کام میں نے تمھارے لیے چھوڑدیاہے۔

محمود!تم بھی اس کے ساتھ شروع ہوگئے؟انسپکٹرجمشیدجھلااٹھے۔

یہ اس کی بری عادت ہے۔ہروقت فاروق کی ٹانگ لینے کی کوشش کرتاہے۔فرزانہ بول اٹھی۔

جب کہ میرے پاس صرف دوٹانگیں ہیں،کوئی فالتوٹانگ ہو تو دوں نا! فاروق ہنسا۔

اے! میں یہ نہیں کہہ رہی تھی۔فرزانہ نے فاروق کوگھورا۔

تم یوں نہیں مانوگے۔میں خان جابرسے ملنے جارہاہوں،میرے ساتھ آنا ہو تو آؤ…… ورنہ یہیں بیٹھ کرباتیں بگھارتے رہو۔انھوں نے جھلاکرکہااوراٹھ کر کھڑے ہوگئے۔

میری طر ف سے انھیں اجازت ہے،بلکہ میں بھی ان کے پاس سے ہٹوں گانہیں اوران کی باتیں سنتارہوں گا۔سیٹھ شوکت شاری بولے۔

جی کیافرمایاآپ نے؟انسپکٹرجمشیدکے لہجے میں حیرت درآئی۔

ان کی باتیں مجھے بہت اچھی لگ رہی ہیں۔

ان کی باتوں میں بس یہی توبری بات ہے جناب!ہرکسی کواچھی لگنے لگتی ہیں۔

سوائے اباجان کے۔فاروق بول اٹھا۔

میرے توپک گئے ہیں کان سنتے سنتے۔

دھت تیرے کی…… اب تو آپ بھی شریک ہو گئے۔ محمود نے پُرجوش انداز میں کہا۔

اوہ……ارے ہائیں! انسپکٹرجمشیدکے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔

٭٭٭٭٭

 اور پھر وہ خان جابرکے ہاں پہنچ گئے۔وہ ایک بھاری بھرکم اوربہت لمبے چوڑے آدمی تھے۔ انھیں دیکھ کرکسی دیو کاگمان ہوتاتھا۔چہرے پرسختی کے آثارنمایاں تھے۔انھیں حیرت زدہ اندازمیں دیکھتے ہوئے خان جابرنے کہا:  غریب خانے پرآپ لوگ کیوں تشریف لے آئے۔اگرکوئی کام تھا تو مجھے فون کر دیا ہوتا۔ ہم کہیں اورملاقات کرلیتے۔

کیامطلب؟انسپکٹرجمشیدنے حیران ہوکرکہا۔

لوگ شک میں پڑجائیں گے کہ نجانے کیاچکرہے؟محکمہ سراغ رسانی والے مجھ میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں؟

ایسی کوئی بات نہیں! آپ فکرنہ کریں۔انسپکٹرجمشیدنے مسکراتے ہوئے کہا۔

اوریہ آپ نے کیاکہا جناب!غریب خانے پر……! اگریہ غریب خانہ ہے تو پھر امیر خانہ کیسا  ہوتا ہوگا۔

فاروق نے خان جابرکی محل نماکوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

آپ کیسے تشریف لائے؟

ہم نے سناہے آپ کی سیٹھ شوکت شاری سے دشمنی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں۔میں اس کابدترین دشمن ہوں۔

اس دشمنی کی کوئی وجہ توہوگی؟

وجہ ضرورہے،لیکن میں آپ کوبتاؤں گانہیں۔

وہ کیوں؟انھوں نے منہ بنایا۔

بس!میری مرضی۔وہ بولے۔

اچھی بات ہے۔آپ کومعلوم ہے ان کی کوٹھی کوآگ لگ گئی ہے۔

کیاآپ یہ کہناچاہتے ہیں کہ کوٹھی کوآگ میں نے لگائی ہے؟خان جابر نے بھنا کر کہا۔

اس کے امکانات ہیں۔

توپھرجائیے،ثابت کیجیے اورمجھ پرمقدمہ چلائیے۔میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی؟

تفتیش کے لیے آئے ہیں جناب!انسپکٹرجمشیدنے طنزیہ لہجے میں کہا۔

آپ کی تفتیش مکمل ہوگئی یانہیں؟

ابھی نہیں! آپ نے اخبارات میں شائع ہونے والی خبرضرور پڑھی ہوگی، کوئی شخص بھی اپنے دشمن کے بارے میں شائع ہونے والی خبرپڑھے بغیرنہیں رہ سکتا۔

میں نے کب کہاکہ میں نے خبرنہیں پڑھی۔ خبرپڑھی تھی لیکن میں ایسی خبروں سے خوش ہونے والانہیں ہوں۔

توپھرآپ کس قسم کی خبروں سے خوش ہونے والے ہیں؟ فاروق نے حیران ہو کر کہا۔

جس روزمجھے اس کے مرنے کی خبرملے گی،اس روزضرورخوش ہوں گا۔

لیکن جناب!موت توآپ کوبھی آئے گی۔

وہ توسب کوآئے گی۔

آخرآپ ان کی موت سے کیوں خوش ہوں گے؟

میں نے بتایانا،میں دشمنی کی وجہ نہیں بتاؤں گا۔آپ سیٹھ شوکت سے کیوں نہیں پوچھ لیتے۔

ان کاکہناہے ……وہ نہیں جانتے۔

ہائیں کیاکہا……وہ نہیں جانتے……!یہ ایک نمبرکاجھوٹ بولاہے اس نے۔خان جابر نے حیران ہوکرکہا۔

توآپ یہ کہناچاہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں؟

بالکل!لیکن جس طرح میں نہیں بتاسکتا،اسی طرح وہ بھی نہیں بتاناچاہتا۔

خیر……ا س بات کوچھوڑیے۔اُس چیونٹی کے بارے میں آپ کیاکہناچاہتے ہیں؟

میں بھلاکیاکہہ سکتاہوں۔

اس تباہی کی ذمے داروہ چیونٹی ہے۔

ہوگی!لیکن میرااس…… اس……بس۔۔۔

خان جابرکے الفاظ درمیان میں رہ گئے۔ان کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

٭٭٭٭٭

اُف میرے مالک!یہ تومیرے ڈرائنگ روم میں بھی موجودہے!

کک……کیا

انھوں نے فوراًاس سمت دیکھاجس طرف خان جابر دیکھ رہے تھے۔ میز پر ایک عدد چیونٹی موجودتھی۔ (باقی آئندہ)

شیئر کریں
135
1