ایسا بھی ہوتا ہے

ڈاکٹر احسان قادر (مظفر گڑھ)

آج پھر سے وہ گزرا زمانہ یاد آیا جب میں پرائمری سکول کا طالب علم تھا۔ زمانہ طالب علمی شرارتوں سے بھر پور ہوتا ہے۔ انہی شرارتوں کی بدولت مابدولت کو کئی بار اماں جی کی مار سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے گھر میں لکڑی کی ایک بڑی سی الماری تھی جس میں اماں حضور سامان خورو نوش کو محفوظ رکھتی تھیں۔ چینی سے ہمارا پرانا یارانہ تھا۔ اسی لیے اس کو ہمیشہ ہماری پہنچ سے دور رکھنے کی کوششیں کی جاتیں، جن کو میں اکثر ناکام بناتے ہوئے اپنے میٹھے دوست تک کسی نہ کسی طرح رسائی حاصل کر لیتا۔ وہ جون کی تپتی دوپہر تھی ۔تمام گھر والے اپنے کمروں میں محو خواب تھے۔ ایسے میں ہمارا چینی کھانے کو من چاہا اور ہم چپکے سے اس کمرے میں جا دھمکے جس میں وہ الماری رکھی تھی۔ ہم نے الماری کو کھولا اور اپنے محبوب دوست کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی ہماری بے چین آنکھوں کو قرار آ گیا۔ وہ ڈبہ جس میں چینی موجود تھی، اماں نے اس کو ہم سے محفوظ رکھنے کے لیے الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھ دیا تھا۔ اب ہماری طلب میں اضافہ یقینی تھا اور صبر کا دامن تھا کہ ہاتھ سے کِھسکتا جا رہا تھا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک پیر  الماری کے نیچے والے خانے پر رکھا اور دوسرا اس سے اوپر والے پر رکھتے ہوئے ہم نے منزل کو پا لیا۔ مٹھی بھر چینی کو ہم نے اپنے شکم میں ڈالا اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ جیسے ہی ہمارے قدم زمین پر ٹکِے ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ رُوح افزا کی بوتل میں موجود سرسوں کا تیل زمین پر گنگا جمنا کی صورت بہہ رہا تھا۔ ایک دم سے کئی فکرات دل گیر ہوئیں۔ چینی کی مٹھاس کرواہٹ میں بدل گئی۔ لیکن ہمارے ننھے سے ذہن میں فوری طور پر ایک ترکیب آئی اور ہم نے اس پر عمل کر ڈالا۔ ہم نے اپنے پاؤں کی مدد سے اس بہتے تیل کو اینٹوں سے لگے فرش میں جذب کرنے کے لیے پھیلانا شروع کر دیا. بڑی جدوجہد کے بعد آخر کار ہم کو محسوس ہوا کہ ہم اپنے مشن میں کامیاب ہو چکے ہیں تو ہم اپنے کمرے میں آئے اور سونے کی اداکاری کرنے لگے۔ یہی کوئی عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت رہا ہو گا جب میری بہن نے مجھے امی جان کی عدالت میں پیش ہونے کا حکم سنایا۔ ہم ڈرتے دل کے ساتھ مگر بڑے پُر اعتماد انداز میں ماں کے سامنے پہنچے تو انہوں نے ہم سے تیل گرنے کا احوال سنانے کا حکم جاری کر دیا۔ ہم کہاں اتنی آسانی سے اپنا جرم تسلیم کرنے والے تھے۔ ہم نے فرد جرم کی صحت سے قطعی طور پر انکار کر دیا اور اپنی صفائی میں دلائل شروع کیے ہی تھے کہ ہمیں حکم ملا کہ اپنے پاؤں کا نِچلا حصہ دیکھایا جائے۔ ہم نے فوری طور پر حکم کی تعمیل کی اور اپنا پاؤں سامنے کر دیا مگر یہ کیا۔۔۔ ہمارے پاؤں کے نیچے جمی مٹی کی دبیز تہہ نے ہمارا پول کھول دیا۔ لیکن ہم نے کمال ڈھٹائی سے ایک بار پھر جرم سے انکار کر دیا۔ مگر آج تو عدالت عالیہ کے دل میں ہمارے لیے کوئی نرم گوشہ نہ تھا۔ ہمیں اسی وقت جائے واردات پر لے جایا گیا جہاں ہمارے ننھے مُنے پاؤں کے نشانات جو تیل آلود ہونے کے بعد ہمارے کمرے سے باہر نکلنے تک کی کہانی بیان کر رہے تھے۔ اب ہم سمجھ چکے تھے کہ بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عدالت نے اپنا سلیپر ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ ہم نے خوب زور و شور سے رونا اور معافی مانگنا شروع کر دی مگر جناب انصاف تو ہونا ہی تھا اور خوب ہوا۔ پیارے بچو! یہ میری زندگی کا حقیقی واقعہ ہے۔ اس طرح کے دلچسپ واقعات سے ہم سب کی زندگی بھری پڑی ہے۔

شیئر کریں
2923
59