برستی بارش میں ریل کا سفر

حفصہ راشد (لودھراں)

یہ اگست کی ایک رات تھی، جب میں اپنی دو چھوٹی بہنوں، بھائی اور والدین کے ہمراہ اپنے آبائی گھر لودھراں میں چھٹیاں گزارنے کے بعد بذریعہ ٹرین کراچی جا رہی تھی۔ ان دنوں ملک بھر میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری تھا اور کراچی دیگر شہروں کی نسبت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ میرے والد بحری فوج میں ملازم ہیں لہذا فوج کے ڈسپلن کی وجہ سے واپسی کی تاریخ کو التوا میں  ڈالنا ناممکن تھا۔ ہمارا سارا سفر خوش اسلوبی  سے گزر رہا تھا کہ کراچی کے  لانڈری اسٹیشن، جو ہمارے گھر سے تقریبا 50 کلومیٹر کی دوری پر تھا، پر ٹرین رک گئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس رکاوٹ کی وجہ ریل کی پٹری پر گرے درخت اور بارش کا پانی ہے۔ تین چار گھنٹے انتظار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس اسٹیشن پر ہی اتر کر بقیہ سفر کے لیے ٹیکسی کا سہارا لیا جائے۔ برسات کی وجہ سے روشنیوں کا شہر کراچی  پانی اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ دیگر مسافروں کے ساتھ میرے اہل خانہ میں بھی بے چینی کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ رات  کے پچھلے  پہر ہم سناٹے اور اندھیرے میں گھرے اس اسٹیشن پر اتر گئے۔ شدید بارش کے باعث متعدد راستے بند ہو گئے تھے، لہذا کوئی ٹیکسی یا رکشہ  وہاں جانے کو تیار ہی نہ تھا۔ کافی دیر گزرنے کے بعد ایک رکشہ اس شرط پر جانے کو راضی ہوا کہ وہ معمول کے کرائے سے تین گنا زیادہ کرایہ وصول کرے گا۔ ہم کسی بھی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فورا رکشہ پر سوار ہو گئے۔ چونکہ اب بارش بھی دوبارہ شروع ہوگئی تھی۔ سڑکوں پر جمع شدہ پانی اور راستوں کی بندش کو مد نظر رکھتے ہوئے رکشہ ڈرائیور نے متبادل راستوں کا انتخاب کیا۔ ابھی چند کلومیٹر کاسفر ہی طے ہوا تھا کہ ایک مقام پر ہمارا رکشہ پھنس گیا اور پانی کی وجہ سے خراب ہو گیا۔ اس تاریک رات میں ہم پانی کے بیچوں بیچ بے یار و مدد گار تھے اور اب پانی بھی رکشے میں داخل ہونا شروع ہو گیا تھا۔ سامان پانی میں تیرنے لگا تھا۔ میری والدہ نے کسی بھی مدد کا انتظار کیے بغیر تمام سامان اور بچوں کو سنبھالا جب کہ میرے والد نے ڈرائیور کے ساتھ پانی میں پھنسے اس رکشے کو کئی کلومیٹر دور تک دھکیلا۔ ہماری نظر ایک مقام پر پڑی جہاں ایک پولیس موبائل دوسری پولیس موبائل کو پانی سے نکالنے کے لیے آئی ہوئی تھی۔ میرے والد نے پولیس اہل کار سے مدد طلب کی تو پولیس موبائل نے ہمیں خراب راستے سے نکال کر بہتر راستے پر چھوڑ دیا لیکن گھر ابھی بھی دور تھا۔ دو گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد ہمیں ایک رکشہ مل گیا اور اس پر ہم نے کراچی کی برستی بارش میں پانی سے بھری سڑکوں پر 8 گھنٹے سفر کیا جو دراصل صرف ایک گھنٹے میں طے ہوا کرتا تھا۔ بالآخر ہم فجر کی اذانوں کے وقت بھیگتے سامان کے ساتھ نڈھال جان سے گھر میں داخل ہو گئے۔ اب بھی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے  ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

شیئر کریں
2975
51