سعید لخت
شاہی محل کے گھڑیال نے ٹَن ٹَن بارہ بجائے تو باورچی خانے کا دربان زور سے چیخا: بااَدب۔۔۔ باملاحظہ۔۔۔ ہوشیار!۔۔۔ شہنشاہوں کے شہنشاہ۔۔۔ اعلیٰ حضرت فرماں روائے اندھیرنگر کھانا تناوُل فرمانے تشریف لاتے ہیں۔
خادموں نے کھانے کے کمرے کا دروازہ کھول دیا اور بادشاہ سلامت اپنی ملکہ کے ساتھ بڑی شان سے اندر داخل ہوئے۔ کمرے کے بیچوں بیچ کھانے کی میز اِس طرح چمک رہی تھی جیسے کسی گنجے کی تیل لگی کھوپڑی۔ ملکہ نے پہلے تو اِدھراُدھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا پھر بادشاہ سلامت سے بولیں: اے حضور! ہماری نظریں دھوکا کھا رہی ہیں یا سچ مُچ کھانے کی میز کھانے سے خالی ہے؟
بادشاہ سلامت چیخ کر بولے: یہ کیا مذاق ہے؟ کہاں ہے باورچی خانے کا منیجر؟ زندہ یا مُردہ۔۔۔۔ فوراً ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔
منیجر میز کے نیچے سے باہر نکلا اور ہاتھ باندھ کر بولا: ح۔۔۔ ح۔۔۔ حضور!۔۔۔ غلام حاضر ہے۔
ملکہ بولیں: حاضر کا بچہ۔۔۔ کھا جاؤں گی کچّا۔۔۔ بارہ بج گئے اور کھانا ابھی تک نہیں لگا۔
منیجر ہاتھ جوڑ کر بولا: حضور! جان کی اَمان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟
بادشاہ سلامت بولے: امان ہے۔۔۔ اَمان ہے۔۔۔ تمھاری سات پُشتوں کو اَمان! جلدی بولو، مابدولت کو بھوک لگ رہی ہے۔
منیجر بولا: اے حضور! باورچیوں نے ہڑتال کر دی ہے، سب کے سب کام چھوڑ کر بھاگ گئے۔
ملکہ اُچھل کر بولیں: بھاگ گئے۔۔۔ کیوں بھاگ گئے۔۔۔ کہاں بھاگ گئے۔۔۔ کیسے بھاگ گئے؟
منیجر بولا: حضور! دو تو سائیکل پر چڑھ کر بھاگ گئے، تیسرا پیدل رفوچکّر ہو گیا اور چوتھا۔۔۔
ملکہ پیر پٹخ کر بولیں: بے وقوف! ہم پوچھتے ہیں کیوں بھاگ گئے؟
منیجر بولا: حضور! وہ کہتے تھے کہ ملکہ عالیہ نے ہمارا ناطِقہ بند کر دیا ہے۔ ایک تو مرچیں بہت کھاتی ہیں، دُوسرا کوڑی کوڑی کا حساب لیتی ہیں اور کبھی ہم بھولے بھٹکے سودے میں سے دو چار آنے کھا لیتے ہیں تو ہمیں چلچلاتی دُھوپ میں مُرغا بنا دیتی ہیں، ایسی نوکری سے ہم بھر پائے، ہم جاتے ہیں، آج کی تنخواہ بھی معاف۔
یہ سُن کر ملکہ عالیہ نے اتنی غضب ناک صورت بنائی کہ بے چارہ منیجر تھرتھر کانپنے لگا۔ محل کی دیواریں لرزنے لگیں اور گھنٹا چلتے چلتے ایک دَم رُک گیا۔ نتھنے پُھلا کر بولیں: سن رہے ہیں بادشاہ سلامت! اِن نمک حراموں کو ایسی خوف ناک سزا دیں کہ اُن کی سات پشتیں یاد رکھیں۔
بادشاہ سلامت زور سے کڑکے: ارے۔۔۔ کوئی ہے؟ وزیرباتدبیر کو زندہ یا مُردہ ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔
تھوڑی دیر بعد وزیرباتدبیر صاحب کانپتے لرزتے کمرے میں آئے اور ہاتھ باندھ کر بولے: جہاں پناہ! غلام حاضر ہے۔
بادشاہ سلامت بولے: ہمارا حکم غور سے سنو!۔۔۔ شہر میں جتنے باورچی ہیں۔۔۔ زندہ یا مُردہ۔۔۔ سب کو فوراً پھانسی پر چڑھا دیا جائے۔
وزیرباتدبیر نے جُھک کر تین سلام کیے اور اُلٹے پاؤں واپس چلے گئے۔
بادشاہ سلامت پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بولے: اب کیا ہو گا؟ مابدولت کا تو بھوک کے مارے بُرا حال ہے، کیوں نہ آج کسی ہوٹل میں کھانا کھایا جائے؟
ملکہ گردن اکڑا کر بولیں: نہیں۔۔۔ آج ہم خود کھانا پکائیں گے تاکہ ہماری رعایا کو معلوم ہو کہ بادشاہ کام چور اور نکمّے نہیں ہوتے، وہ کام کرنا بھی جانتے ہیں۔ آئیے! باورچی خانے میں چلیں۔
دربان نے باورچی خانے کا دروازہ کھول دیا اور زور سے چیخا: باادب۔۔۔ باملاحظہ۔۔۔ ہوشیار!۔۔۔ شہنشاہوں کے شہنشاہ۔۔۔ اعلیٰ حضرت فرماں روائے اندھیرنگر کھانا پکانے تشریف لاتے ہیں۔
ملکہ بولیں: کھانا تو میں پکا لوں گی، لیکن حضور کو بھی کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔۔۔ فرمائیے!۔۔۔ آپ میری کیا مدد فرما سکتے ہیں؟
بادشاہ سلامت بولے: ہم کھانا ختم کرنے میں آپ کی مدد فرما سکتے ہیں۔
ملکہ غصّے سے بولیں: جہاں پناہ! یہ کیا فرما رہے ہیں؟ ملکہ کھانا پکائیں گی تو آپ کو بھی اُن کا ہاتھ بٹانا پڑے گا۔۔۔ چلیے۔۔۔ آپ چولہا جلائیے۔۔۔ میں ترکاری کاٹتی ہوں۔
یہ سُن کر بادشاہ سلامت نے مجبوراً وہ چُغہ پہنا جسے پہن کر شاہی باورچی کھانا پکاتے ہیں۔ بدقسمتی سے بادشاہ سلامت کا قَد بہت چھوٹا تھا اور چُغہ بہت بڑا۔ آپ سر سے پیر تک اُس چغے میں چُھپ گئے اور ایسے معلوم ہونے لگے جیسے کوئی مُردہ قبرستان سے اُٹھ کر بھاگ آیا ہو۔
اب بادشاہ سلامت تو چلے چولہا پھونکنے اور ملک عالیہ نے ترکاری کے لیے نعمت خانے کا پٹ کھولا۔ سارا نعمت خانہ چھان مارا، مگر سوائے ایک ٹوٹے ہوئے انڈے اور ایک سڑے ہوئے آلو کے اور کچھ نہ ملا۔ بہت جھلائیں۔ نوکروں کو آواز دینا چاہتی ہی تھیں کہ دروازہ کھلا اور دربان اندر آکر بولا: حضور! پھول نگر کے راجہ اور رانی بے ہوش تشریف لائی ہیں۔
ملکہ خوش ہو کر بولیں: سنتے ہیں، جہاں پناہ!۔۔۔ راجہ تشریف لائے ہیں۔
جہاں پناہ بولے: سنیں کیا خاک۔۔۔ چولہا پھونکتے پھونکتے مابدولت کی ناک جل گئی۔
جاؤ! انھیں ملاقاتی کمرے میں بٹھاؤ۔۔۔ کہنا بادشاہ سلامت چولہا جلا کر ابھی تشریف لاتے ہیں۔ملکہ بولیں
حضور بھی کمال کرتے ہیں۔۔۔ راجہ سنیں گے تو کیا کہیں گے۔۔۔ کبھی عقل سے بھی کام لیا کیجیے۔ بادشاہ سلامت توند پر ہاتھ پھیر کر بولے۔
عقل ہوتی تو کوئی اچھا کام کرتے۔۔۔ بادشاہی کاہے کو کرتے۔ ملکہ سُنی اَن سُنی کر کے بولیں۔
حضور!۔۔۔ جا کر اُن کا اِستقبال کریں۔۔۔ ہم اَبھی آتے ہیں۔
کچھ تو بُھوک اور کچھ راجہ کی آمد۔ ان سب باتوں نے بادشاہ سلامت کو گھبرا دیا اور آپ باورچیوں والا چغہ پہنے ہوئے ہی راجہ سے ملنے چل کھڑے ہوئے، لیکن جب ملاقاتی کمرے کی سیڑھیاں اُترنے لگے تو دامن پیروں میں اُلجھ گیا اور آپ قلابازیاں کھاتے ہوئے راجہ کے قدموں میں جا گرے۔
رانی موٹر میں سے اپنا بٹوا لینے گئی ہوئی تھیں۔ راجہ کمرے میں اکیلے تھے۔ وہ بے چارے سیدھے سادے ۔ سمجھے کہ بادشاہ سلامت نے اُن کے بیٹھنے کے لیے گاؤ تکیہ بھیجا ہے۔ یہ سوچ کر وہ جھٹ بادشاہ سلامت پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ بادشاہ سلامت نے جو یہ آفت اپنے اُوپر نازل ہوتے دیکھی تو اُٹھنے کے لیے زور لگایا۔ اس گڑبڑ میں دونوں چغے میں لپٹ گئے اور لڑھکتے ہوئے صوفے کے نیچے جا گُھسے۔ ادھرتو یہ تماشا ہو رہا تھا اوراُدھر ملکہ اور رانی اندر تشریف لائیں، مگر جب کمرا خالی دیکھا تو بہت حیران ہوئیں۔ بولیں: ارے!۔۔۔ یہ جہاں پناہ اور راجہ کہاں چلے گئے؟
رانی بولیں: شایدباغ میں ہوں۔۔۔ میں تو تھک گئی ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر بیٹھوں گی۔۔۔ آپ ہی آجائیں گے۔
یہ کہہ کر رانی اُسی صوفے پر بیٹھ گئیں جس کے نیچے بادشاہ سلامت اور راجہ کُشتی لڑ رہے تھے، مگر ابھی پوری طرح بیٹھنے بھی نہ پائی تھیں کہ نیچے سے بادشاہ سلامت چیخ کر بولے: ارے میرا سر!۔۔۔ اُف میرا سر ٹوٹا۔
رانی ایک دَم اُچھل پڑیں اور حیران ہو کر صوفے کو دیکھنے لگیں کہ اِتنے میں راجہ چلّائے: ارے۔۔۔ کوئی بادشاہ سلامت کو بُلاؤ۔۔۔ یہ بُھوت میرا گلا گھونٹ رہا ہے۔
ملکہ عالیہ اور رانی یہ چیخیں سُن کر گھبرا گئیں اور بے تحاشا شور مچانے لگیں۔ اب یہ حالت تھی کہ راجہ بادشاہ سلامت سے پیچھا چھڑانے کی لاکھ کوشش کریں، مگر چغے میں اس بری طرح اُلجھ گئے تھے کہ کسی طرح الگ ہی نہ ہوتے تھے۔ اِس کُشتم کُشتا اور دھکّم دھکّا کی وجہ سے صوفہ سارے کمرے میں ناچا ناچا پھر رہا تھا۔ یکایک دروازہ کھلا اور دربان اندر داخل ہوا۔ اُس نے جو صوفے کو کمرے میں چکّر لگاتے دیکھا تو بھوت بھوت کہہ کر بھاگنے لگا۔ ملکہ عالم ڈانٹ کر بولیں: کم بخت!۔۔۔ دیکھ تو۔۔۔ یہ کیا گڑبڑ ہو رہی ہے۔
ملکہ عالم کی ڈانٹ سے دربان ٹھہر گیا اور اُس نے صوفہ اُلٹ کر بادشاہ سلامت اور راجہ کو علیحدہ کیا۔ اب دونوں سُورماؤں کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ بادشاہ سلامت کا چُغہ پھٹ پھٹا کر برابر ہو گیا تھا۔ صرف ایک دھجی گلے میں لٹک رہی تھی۔ پاجامے کا ایک پائینچہ راجہ کھا گئے تھے اور دُوسرا دھینگامُشتی میں اُوپر چڑھ گیا تھا۔ راجہ کو دیکھ کر تو سرکس کے کسی مسخرے کا دھوکا ہوتا تھا۔
تھوڑی دیر تک دونوں ایک دُوسرے کو گُھورتے رہے۔ پھر راجہ بولے: ارے جہاں پناہ۔۔۔ آپ؟
بادشاہ سلامت پیٹھ سہلا کر بولے: کوئی بات نہیں راجہ! غلطی ہو ہی جاتی ہے، آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟
راجہ کراہتے ہوئے بولے: جی نہیں حضور!۔۔۔ صرف ذرا سی ناک پچک گئی ہے۔
بادشاہ سلامت غصّے سے بولے: یہ سب اِس چغے کا قصور ہے۔
راجہ نے کہا: جی ہاں! لیکن حضور! آپ نے یہ چُغہ پہنا ہی کیوں تھا؟
بادشاہ سلامت کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ دربان نے آکر عرض کیا: کھانا تیار ہے۔
کھانا!! بادشاہ سلامت نے حیرت سے کہا۔
کھانا؟ ملکہ نے تعجب سے پوچھا۔
جی ہاں حضور!دربان نے سر جھکا کر کہا: باورچی کام پر واپس آگئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم سے غلطی ہو گئی تھی۔ حضور! معاف فرمائیں۔
یہ نہیں ہو سکتا۔ ملکہ تَن فَن ہو کر بولیں۔بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ تمام باورچیوں کو پھانسی دے دی جائے۔
بادشاہ سلامت جلدی سے بولے: ملکہ عالیہ! صبح سے ہم بھی بھوکے ہیں اور آپ بھی۔۔۔ پھر راجہ بھی آج ہمارے مہمان ہیں۔۔۔ ہماری رائے میں باورچیوں کا قصور معاف فرما دیا جائے۔۔۔ کیوں رانی صاحبہ؟
رانی بولیں:حضور! بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔
بادشاہ سلامت نے کڑک کر حکم دیا: کھانا لگایا جائے۔ آج ہم یعنی اعلیٰ حضرت حضور پُرنور شاہِ پھول نگر کے راجہ اور رانی کے ہمراہ کھانا تناوُل فرمائیں گے۔