احمد فراز

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک سوداگر کو کسی دوسرے ملک میں جانا پڑا۔ اس سوداگر کی تین لڑکیاں تھیں۔ چھوٹی لڑکی سب سے زیادہ خوبصورت اور نیک تھی۔ اس کا نام عسارہ تھا۔ وہ ابا کی ہر بات مانتی۔ اس لیے سوداگر بھی تینوں بیٹیوں میں سے سب سے زیادہ عسارہ کو چاہتا تھا۔ جب سوداگر سفر پر روانہ ہونے لگا، تو اُس نے تینوں بیٹیوں کو بلایا اور پوچھا کہ ان کے لیے وہ کیا لائے؟ سب سے بڑی بیٹی نے خوبصورت زیور لانے کے لیے کہا۔ منجھلی نے اچھے اچھے کپڑے لانے کو کہا اور جب عسارہ کی باری آئی اور سوداگر نے پوچھا

سوداگر: میری اچھی بیٹی عسارہ! تمہارے لیے کیا لاؤں؟

عسارہ: ابا جی! مجھے قیمتی کپڑے چاہییں اور نہ زیور، مجھے بس ایک چیز لادیجیے۔

سوداگر: کہو بیٹی۔۔۔

عسارہ: ابا چند دن ہوئے میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔ اس خواب میں مجھے ایک باغ میں ایک پھول نظر آیا۔ وہ پھول سنہرا تھا، لیکن اس سے ایک عجیب قسم کی روشنی نکل رہی تھی اور اس روشنی سے وہ باغ چمک رہا تھا، بس مجھے وہ پھول لا دیجیے ابا۔

سوداگر: بیٹی! کہیں خواب کی باتیں بھی پوری ہوسکتی ہیں؟ کوئی اور چیز کہو تو لادوں، خواب کا پھول نہ جانے اس دنیا میں کہیں ہے بھی یا نہیں۔ اس لیے کچھ اور کہو۔

عسارہ:ابا جی! وہ سنہرا پھول اس دنیا میں ضرور ہوگا بس اگر آپ وہ لاسکتے ہیں، تو ضرور لائیے، ورنہ میری اور کوئی خواہش نہیں۔

سوداگر:سوچتے ہوئے، تم اداس کیوں ہوگئی ہو؟ اچھا بیٹی میں جارہا ہوں اور کوشش کروں گا کہ تمہاری فرمائش پوری کرسکوں۔ ہمارا جہاز آج لنگر اٹھالے گا۔ اس لیے اب میں تم سے رخصت ہوتا ہوں۔

عسارہ: خدا حافظ ابا جی۔

سوداگر:خدا حافظ۔

سوداگر جہاز پر روانہ ہوا۔ دو تین روز تک تو جہاز بڑے سکون سے سمندر میں چلتا رہالیکن ایک رات اچانک موسم بدل گیا۔ طوفانی ہوائیں چلنے لگیں۔ سمندر کی لہریں دیوار کی طرح اٹھنے لگیں اور جہاز ڈوبنے لگا۔ جہاز کے کپتان نے بہت کوشش کی کہ جہاز سنبھل جائے، لیکن طوفان رفتہ رفتہ بڑھنے لگا اور  ہر لہر کے ساتھ یہ محسوس ہوتا کہ اب جہاز ڈوبا اور اب مسافر غرق ہوئے، چنانچہ کپتان نے مسافروں کو کہا کہ وہ اپنی اپنی جانیں بچانے کے لیے جہاز سے کود پڑیں، بعض مسافروں کی طرح سوداگر نے بھی ایک تختہ لیا اور سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ سوداگر اونچی نیچی لہروں پر تیرتا ہوا تنکے کی طرح بہتا رہاآخر دوسری رات وہ زمین پر جاپہنچا اور بہت خوش ہوا۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا لیکن اسے کوئی شخص نظر نہ آیا، البتہ ہر طرف خوبصورت پھول اور پھل دا ردرخت تھے۔ اس نے کچھ پھل کھائے اور پھر جزیرے کی سیر کرنے کے لیے اِدھر اُدھر پھرنے لگا۔ اچانک اسے ایک محل نظر آیا، جو بہت خوبصورت تھا۔ جب محل کے دروازے کے پاس پہنچا، تو دروازہ خود بخود کھل گیا۔ سوداگر اندر داخل ہوا۔ اسے نہایت خوبصورت کمرے نظر آئے چنانچہ وہ ایک کمرے میں داخل ہوگیا۔

سوداگر: واہ۔۔۔ واہ! کتنا خوبصورت محل ہے۔ کمرے کی دیواروں میں ہیرے اور موتی لگے ہوئے ہیں، ستون چاندی اور سونے کے بنے ہوئے ہیں، ریشم کے پردے کتنے قیمتی ہیں اور یہ سبز و سرخ قالین نہ جانے یہ کس شہنشاہ کا محل ہے؟

غیبی آواز:السلام علیکم اے میرے مہمان۔

سوداگر: (گھبرا کر) ہائیں! تُو کون ہے او رکہاں ہے؟ مجھے تیری صورت نظر نہیں آتی۔

غیبی آواز:تم مجھے نہیں دیکھ سکوگے۔ ہاں تمہارا دل جس چیز کو چاہے گا، تمہیں مل جائے گی۔ اچھا اب پہلے کھانا کھا لو۔

سوداگر:(وقفہ کے بعد) ہیں! یہ کھانے کی بے شمار طشتریاں کتنی قسم کے کھانے ہیں اور ہر کھانا تازہ ہے۔ اے میرے میزبان تیرا شکریہ۔

سوداگر: (اپنے آپ سے) واہ! کتنا لذیذ کھانا تھا اچھا، اب ذرا اس محل کی سیر کی جائے۔ وہ سامنے باغ ہے۔ کیوں نہ پھولوں کو دیکھوں۔ اُف! کتنی روشنی ہے باغ میں اور کتنی خوشبو، جیسے سانسوں میں عطر گھل گیا ہو۔۔۔ لیکن ۔۔۔  یہ روشنی کیسی ہے؟ ہیں! ایک پھول اور اتنا روشن جس کی روشنی سے تمام باغ میں نور ہی نور ہے۔ ارے! یہ تو وہی سنہرا پھول ہے، جس کے متعلق عسارہ نے کہا تھا۔

ہاں! یہ وہی پھول ہے، جو تمہاری سب سے چھوٹی بیٹی عسارہ نے مانگا تھا، لیکن یہ پھول تم نہیں توڑ سکتے۔

سوداگر:لیکن تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ پھول میری سب سے چھوٹی بیٹی نے مانگا تھا۔

غیبی آواز:مجھے سب کچھ معلوم ہے لیکن تم یہ پھول نہیں لے جاسکتے۔

سوداگر: میں ضرور یہ پھول لوں گا۔ مجھے اپنی بیٹی کی خواہش اپنی جان سے زیادہ پیاری ہے۔ میں ضرور اس کی خواہش پوری کروں گا۔ میں یہ پھول ضرور توڑوں گا۔

(پھول توڑتے ہی ڈراؤنی آوازیں آنے لگیں۔ خوفناک ہوائیں تیز چلنے لگیں)

غیبی آواز: آہ! تم نے یہ کیا کیا سوداگر! تم نے اپنے میزبان کو دکھ پہنچایا۔ اس کی سزا موت ہے۔

سوداگر: میں جانتا ہوں کہ میں نے اپنے میزبان کو دکھ پہنچایا، لیکن مجھے اپنی بیٹی سب سے زیادہ پیاری ہے۔

غیبی آواز: اچھا تو تم ایک شرط پر یہ پھول لے جاسکتے ہو۔

سوداگر: وہ کیا؟

غیبی آواز: ”ابھی ایک انگوٹھی ہوا میں تیرتی ہوئی تمہارے ہاتھ کے سامنے آکر رکے گی۔ اسے اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے میں پہن لینا۔ تم فوراً اپنے گھر پہنچ جاؤ گے، لیکن وہاں جاکر یہ انگوٹھی اپنی چھوٹی بیٹی عسارہ کو دے دینا تاکہ وہ یہاں پہنچ جائے اور پھر یہیں رہے۔

سوداگر:نہیں نہیں! میں اپنی بیٹی کو اس جگہ نہیں بھیج سکتا، کسی قیمت پر بھی میں اسے اس جادو کی بستی میں نہیں بھیج سکتا۔

غیبی آواز: یہاں اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔

سوداگر: کچھ بھی ہو تمہاری شرط نہیں مان سکتا۔

غیبی آواز: تو پھر تمہیں موت قبول کرنا ہوگی۔ گھر پہنچنے کے بعد یہ پھول اپنی بیٹی کو دے دینا، لیکن صبح سے پہلے یہ انگوٹھی تم ضرور پہن لینا، ورنہ تمھاری جان کو خطرہ ہے۔

سوداگر: اچھا۔

غیبی آواز:تو جاؤ۔ اور صبح ہونے سے پہلے یہاں آجانا۔

سوداگر نے وہ انگوٹھی پہنی اور فوراً اپنے شہر پہنچ گیا۔ اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ تھیلا اس کے ہاتھ میں ہے اس میں ریشمی کپڑے اور قیمتی زیور ہیں، چنانچہ گھر پہنچتے ہی اپنی بڑی لڑکی کو قیمتی زیور اور منجھلی کو ریشمی کپڑے دے دیے لیکن عسارہ کو اس نے تنہا کمرے میں بلایا اور کہا

سوداگر: (خوشی میں) عسارہ بیٹی! میں تمہارے لیے تمہاری منہ مانگی چیز لایا ہوں۔

عسارہ: ابا! تو کیا سچ مچ آپ میرے لیے سنہرا پھول لائے ہیں؟

سوداگر: ہاں! یہ لو

عسارہ:ہاہاہا۔کتنا خوبصورت اور روشن پھول ہے یہ۔

یہ وہی پھول ہے ابا جومیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ دیکھو چاروں طرف سے روشنی پھوٹ رہی ہے۔

سوداگر: (اداس ہوکر)ہاں بیٹی

عسارہ: لیکن ابا جان آپ پھول مجھے دے کر کچھ اداس معلوم ہوتے ہیں۔

سوداگر: نہیں بیٹی! ایسی کوئی بات نہیں۔

عسارہ:ابا! میں جانتی ہوں، آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔

سوداگر: میری طبیعت اچھی نہیں۔ اب تم جاؤ بیٹی! مجھے تنہا چھوڑ دو۔

عسارہ: ابا جی

سوداگر: تم پھول لے جاؤ۔میں تنہا رہنا چاہتا ہوں۔

عسارہ: اچھی بات ابا۔ میں جارہی ہوں۔

جب عسارہ چلی گئی تو سوداگر کو بہت بے چینی ہوئی۔ وہ جانتا تھا کہ صبح ہونے سے پہلے اسے چل دینا چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے اس کی بچی پر کوئی آفت نہ آئے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ موت اس کی راہ دیکھ رہی ہے۔ اس لیے وہ بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ ادھر عسارہ نے ایک خواب دیکھا، جس سے اسے باپ کی بے چینی کا راز معلوم ہوگیا۔ وہ گھبرا کر اٹھی تو اسے اپنے ابا کے کمرے میں بتی جلتی نظر آئی۔ عسارہ فوراً دوڑکر آئی۔وہاں اس نے ایک انگوٹھی دیکھی اور فوراً انگوٹھی اُٹھالی۔ سوداگر نے جب یہ دیکھا تو گھبر اکر بولا

سوداگر:عسارہ! یہ کیا کررہی ہو بیٹی! یہ انگوٹھی موت کی ہے۔ اسے نہ پہننا۔

عسارہ: ابا جان! مجھے سب کچھ معلوم ہوچکا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ میری وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں۔ میری وجہ سے یہ سب آفت آپ پر آئی۔ یہ انگوٹھی پہن کر آپ کی بجائے میں وہاں ضرور جاؤں گی۔

سوداگر: عسارہ بیٹی نادانی نہ کرو۔ وہاں جان کا خطرہ ہے۔ وہاں کوئی بھوت ہے جو تمہیں نگل جائے گا۔

عسارہ:اباجان! اب جو کچھ بھی ہومیں جاؤں گی۔ یہ لیجیے میں انگوٹھی پہنتی ہوں۔

سوداگر:عسارہ۔ عسارہ۔

عسارہ نے جب انگوٹھی پہنی تو اسی جزیرے میں پہنچ گئی۔ جہاں سے سوداگر سنہرا پھول لایا تھا۔ وہاں کے نظارے اور خوبصورت جگہیں اسے بہت پسند آئیں۔ جب وہ آگے گئی تو ایک ندی آگئی لیکن اسے پار کرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ اتنے میں عسارہ نےدیکھا کہ ایک بڑا سا گلاب کا پھول تیرتا ہوا اس کے قریب آیا۔ جس میں عسارہ بڑی آسانی سے بیٹھ سکتی تھی۔ چار خوبصورت سفید بطخیں اس پھول کی پتیوں کو اپنی چونچوں سے پکڑ کر ندی کے پار تک پہنچیں، جہاں عسارہ اتر گئی۔ عسارہ کی حیرت برابر بڑھ رہی تھی۔ اچانک اسے وہی محل دکھائی دیا۔ جب وہ محل میں داخل ہوئی تو ایک آواز آئی

غیبی آواز:السلام علیکم۔ اے میری مہربان۔

عسارہ:اے میرے غیبی میزبان تم پر بھی سلامتی ہو، میں اپنے باپ کا وعدہ پورا کرنے آئی ہوں۔

غیبی آواز: میں جانتا ہوں کہ تم ایک بہادر اور سچی لڑکی ہو۔ تم نے واقعی اپنے ابا کی جان بچالی۔ میں بہت خوش ہوں اور اب تم اس محل کی مالک ہو۔ یہ ہیرے موتی، زیورات، پھول، باغ اور تمام نعمتیں تمہاری ہیں۔تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔

عسارہ:میرے اچھے میزبان تمہارا بہت بہت شکریہ لیکن میں ان تمام خوبصورت چیزوں کے باوجود اپنے باپ اور بہنوں سے جدا نہیں رہ سکتی۔ اس لیے میں گھر واپس جانا چاہتی ہوں۔

غیبی آواز: (بھرائی ہوئی آواز میں) تو کیاواقعی تم مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی! اچھا تم کچھ روز یہاں رہو تمہیں بہلانے کے لیے یہاں ہر قسم کا سامان موجود ہے۔

عسارہ:ایک شرط پر میں رک سکتی ہوں۔

غیبی آواز:وہ کیا؟

عسارہ: تم اپنی صورت مجھے دکھاؤ۔

غیبی آواز:نہیں میں اپنی صورت تمہیں نہیں دکھا سکتا۔ میری شکل بہت بری ہے۔ جسے دیکھ کر تم ڈر جاؤ گی اور مجھ سے نفرت کرنے لگو گی۔

عسارہ:نہیں میں تم سے نفرت نہیں کروں گی۔ تم سامنے تو آؤ۔

غیبی آواز:میری شکل ایک درندے کی طرح ہے تم ضرور ڈر جاؤ گی۔

عسارہ: کچھ بھی ہو میں ضرور تمہیں دیکھوں گی۔

غیبی آواز:لیکن اگر تم چاہو تو مجھے اپنی اصلی شکل واپس مل سکتی ہے۔

عسارہ: وہ کیسے؟

غیبی آواز:تمہیں اپنے خون کی ایک بوند اس سنہرے پھول میں ڈالنی ہوگی، لیکن نہایت سچے دل سے، ورنہ میری شکل اور زیادہ بگڑ جائے گی۔

عسارہ: میں خون کی ایک بوند چھوڑ اپنا سارا خون نچوڑنے کو تیار ہوں، مگر وہ سنہراپھول تو میرے گھر ہے۔

غیبی آواز:نہیں وہ پھول اپنی جگہ پر آچکا ہے۔ وہ دیکھو۔

عسارہ: ہاں یہ وہی پھول ہے، میں نہایت سچے دل سے اس پھول میں اپنے خون کا قطرہ ڈالوں گی۔

غیبی آواز:لیکن ٹھہرو۔ اس پھول کے ساتھ ہی ایک پودا ہے جس کے ساتھ سیاہ کانٹے ہیں۔ ان میں سے کسی کانٹے پر اپنی انگلی رکھ دو اور جب خون بہنے لگے تو سنہرے پھول میں ایک قطرہ ٹپکا دو۔

عسارہ:بہت اچھا۔ یہ لو میں ابھی انگلی کانٹے پر رکھتی ہوں۔ اوئی۔

غیبی آواز:عسارہ

عسارہ: کون؟ اے خوبصورت شہزادے تو کون ہے؟

شہزادہ: میں وہی ہوں جس کے لیے تم نے اپنا خون پھول میں ڈالا۔ مجھے ایک ڈائن نے جنگلی جانور بنا دیا تھا اور جب تک کوئی معصوم لڑکی اپنا خون اس سنہری پھول میں نہ ڈالتی، میں انسان نہ بن سکتا تھا۔ اب میں انسان ہوں۔

عسارہ:تو چلو میرے ساتھ چلو۔ میرے ابا تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔

شہزادہ: اور یہ سنہرا پھول؟

عسارہ: یہ بھی لیتے چلو۔

عسارہ اور شہزادہ سوداگر کے گھر پہنچے اور جب یہ کہانی اسے سنائی تو وہ بہت خوش ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد عسارہ اور شہزادے کی شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ ان کے گھر میں جو سب سے زیادہ خوبصورت چیز تھی، وہ سنہرا پھول تھا۔

(بحوالہ بچوں کا ادب کی الف لیلہ، جلد اول، مرتبہ:نذیر انبالوی)

شیئر کریں
77
3