پروین شاکر

بہت دنوں کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک جلاہا رہتا تھا کرمو! اس بے چارے کے پاس ایک ہی کھڈی تھی جس پر وہ اور اس کی بیوی، دن رات ایک کر کے کپڑا بنتے اور پھر قریبی قصبے میں جا کر اسے بیچ آتے۔ اس طرح ان کی دال روٹی چل رہی تھی، چونکہ ان دونوں کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے انھیں کوئی بہت زیادہ کمانے کی پریشانی بھی نہ تھی، مگر وہ اداس ضرور رہتے تھے۔ کرمو کا گاؤں ملک کے ایک ایسے حصے میں واقع تھا جہاں زیادہ تر برف جمی رہتی تھی، بس اگست سے اکتوبر تک موسم ذرا بہتر ہو جاتا تھا پھر بھی برف باری کی وجہ سے شہر جانے والا راستہ کئی کئی دن بند رہتا اور غریب کرمو اور اس کی بیوی کو کبھی کبھی تو بھوکا ہی سونا پڑتا۔

یہ مارچ کی ایک صبح کا واقعہ ہے۔ کرمو کی بیوی نے ناشتے پر اپنے شوہر کو بتایا کہ بس ڈبل روٹی اور پنیر کا یہ آخری ٹکڑا ہے جو وہ کھا رہے ہیں۔ اب گھر میں رات کے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ کرمو نے اپنی بیوی کو تسلی دی اور کہا کہ وہ فکر نہ کرے اور وہ کپڑا، جو  دو تین دن کی بارشوں میں اس نے بُن کر رکھا ہے، کرمو کو دے دے۔ شام تک خدا ضرور کوئی نہ کوئی بندوبست کر دے گا۔ بیوی کے ماتھے پر بل پڑ گئے مگر وہ بولی کچھ نہیں، البتہ کرمو کے جانے کے بعدوہ بارش پر برستی رہی اور برف باری کو جہنم میں جانے کو بددعائیں دیتی رہی۔ وہ ویسے بھی میدانوں کی رہنے والی تھی اور اسے پہاڑی علاقوں کی اچانک اور طوفانی بارشیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔

بازار بہت دور تھا اور رستہ بے حد خطرناک۔ بارش کی وجہ سے پھسلن بھی اتنی ہو چکی تھی کہ چلنا آسان نہیں رہا تھا، ویسے بھی پہاڑوں پر چلنا خاصا مشکل کام ہے مگر کرمو کی ساری زندگی انھی گھاٹیوں میں گزری تھی، سو وہ بہت احتیاط سے قدم رکھتا ہوا اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ پہاڑوں پر کوئی سیدھا راستہ تو ہوتا نہیں، بالکل سامنے کی چیزکے لیے اس قدر گھوم کر جانا پڑتا ہے۔ آج کرمو کو تھکن اوربھوک کی وجہ سے یوں بھی چڑھائی خاصی دشوار معلوم ہوئی لیکن اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر وہ اس طرح آدھے راستے سے گھر واپس چلا گیا تو اسے اپنی بیوی کی باتیں سننی پڑیں گی، غصے میں وہ اپنے نصیب پھوٹنے کا اس قدر شد ّو مد سے ذکر کرتی کہ اب اس کے ہمسایوں تک کو پوری تفصیل ازبر ہو چکی تھی۔ تقریباً دو بجے کرمو قصبے کے بازار پہنچا۔ اسے معلوم تھا کہ اس دفعہ کپڑا کچھ زیادہ نہیں اور کچھ بُنائی بھی اچھی نہیں ہوئی چنانچہ وہ ایک نسبتاً چھوٹی دکان کی طرف گیا اور جھجکتے جھجکتے دکان دار سے پوچھا:کیوں بھئی! یہ کپڑا لو گے؟

دکان دار نے کپڑے کو اِدھر اُدھر سے پلٹ کر دیکھا اور کچھ زیادہ اشتیاق نہ ظاہر کرتے ہوئے پوچھا: کتنے میں بیچو گے؟

کرمو نے ڈرتے ڈرتے کہا: پچاس روپے میں۔

ہیں! اس کپڑے کے؟ دکان دار طنزیہ انداز میں بولا۔ جاؤ میاں! کوئی اور دکان دیکھو، میں نے تو کپڑا اس لیے دیکھ لیا تھا کہ ضرورت مند معلوم ہوتے ہو۔ آج کل ویسے بھی کاروبار مندا ہے۔ برف باری کی وجہ سے لوگ کھانے پینے کی چیزیں زیادہ خرید خرید کر جمع کر رہے ہیں۔ ان کپڑوں کو کون پوچھتا ہے؟

دنیا کے ہر دکان دار کی طرح یہ بھی بے حد باتونی تھا۔ کرمو نے اس کی تقریر سے گھبرا کر کہا:اچھا تم بتاؤ، تم کتنے کا لو گے؟

میں؟ دکان دار نے کچھ دیر کے لیے سوچا، پھر کہا: پندرہ روپے سے ایک پیسہ زیادہ نہیں دوں گا۔

پندرہ روپے! کرمو کا گلا رندھ گیا۔ اسے اپنے مستقل خریدار یاد آ گئے جنھیں وہ اس سے کہیں زیادہ قیمت پر کپڑا بیچا کرتا تھا، مگر تب کپڑا زیادہ اور اس کی بُنائی بہتر ہوتی تھی۔ کرمو نے دل میں اپنے آپ کو سمجھایا اور پھر دکان دار سے چپ چاپ پندرہ روپے لے کر آگے بڑھ گیا۔

راستے میں اس نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدیں اور تیز تیز گھر کی طرف چل پڑا۔ پہاڑی علاقوں میں ویسے بھی بہت جلدی شام ہو جاتی ہے، پھر اندھیرے میں سفر کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ کرمو اندھیرا ہونے سے پہلے پہنچ جانا چاہتا تھا۔ آخری ٹیلہ عبور کر کے کرمو ابھی وادی میں اترا ہی تھا کہ اسے اچانک محسوس ہوا کہ سامنے پائن کے درخت کے نیچے برف بالکل گلابی ہو رہی ہے۔

ہیں یہ کیا؟ کرمو حیران ہو کر درخت کی طرف بڑھا۔پائن کے درخت کے بالکل نیچے ایک کونج بری طرح زخمی پڑی تھی۔ اس کے دائیں پیر کے عین نیچے ایک تیر لگا ہوا تھا، تو یہ برف کونج کے خون سے سرخ ہو رہی تھی، کرمو کی اب سمجھ میں آیا۔ کونج بے چاری آہستہ آہستہ کراہ رہی تھی۔ اس کراہ نے کرمو کے پاؤں پکڑ لیے۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے لفافے زمین پر رکھے اور آہستہ آہستہ، بڑی احتیاط سے تیر نکال دیا۔ کونج اگرچہ بہت نڈھال ہو چکی تھی مگر رہائی کا احساس اتنا خوش گوار تھا کہ نہ جانے کہاں سے اس میں قوت آ گئی۔ اس نے اپنے زخمی پَر پھڑپھڑائے اور سامنے درختوں کے جھنڈ کی طرف اڑ گئی۔ کونج ابھی فضا میں بلند ہوئی تھی کہ کہیں سے اس کا شکاری نازل ہو گیا۔

تم نے اڑائی ہے میری کونج؟ وہ چلّایا۔

ہاں بھائی! وہ بے چاری زخمی تھی۔ مجھ سے اس کی تکلیف نہیں دیکھی گئی۔ کرمو نے سر جھکا کر کہا۔

تکلیف کے بچے! اب رات کا کھانا مجھے کون دے گا؟ شکاری کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔

نہیں، نہیں! اتنا غصہ مت کرو میرے بھائی! تمھیں کھانا ہی چاہیے نا؟ تم یہ لے لو، اس میں پنیر اور ڈبل روٹی ہے، گوشت بھی ہے۔ یہ میں اپنے گھر لے جا رہا تھا، تم لے لو۔

کرمو نے اپنے سارے لفافے اسے تھما دیے۔

شکاری نے بڑبڑاتے ہوئے سارے تھیلے لے لیے اور شکریے کا ایک لفظ ادا کیے بغیر واپس اسی طرف چل پڑا، جدھر سے آیا تھا۔

گھر پہنچتے پہنچتے بالکل رات ہو چکی تھی اور اس کی بیوی برے وقت کے لیے بچائے ہوئے آلو بھون رہی تھی۔

شکر ہے، تمھیں گھر تو یاد آیا اور یہ تم خالی ہاتھ ہلاتے کیا چلے آ رہے ہو؟کیا کپڑا ہوا میں اڑ گیا؟ تم سے تو اب ذرا سی خرید و فروخت بھی نہیں ہوتی۔ اس سے تو بہتر ہے کہ اب تم ہانڈی چولھا سنبھالو اور میں کپڑے بیچتی پھروں۔ غضب خدا کا، ذرا سا سودا سلف لانا تھا اور تم نے سارا دن گنوا دیا۔

کرمو اپنی بیوی کے کسی فل اسٹاپ کے بغیر بولتے رہنے سے اچھی طرح واقف تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جب تک بیوی خود سانس لینے نہ رکے، اس سے کچھ کہنا سننا بے کار ہے۔ جب وہ بک جھک کر چپ ہو گئی تو کرمو نے اسے کونج کا قصہ سنانا چاہا۔

کونج! کونج کا کیا ذکر؟ کیا تم کونج خریدنے گئے تھے؟بیوی غصے میں پھٹ پڑی۔

نیک بخت! بات تو سن، وہ بے چاری زخمی ہو گئی تھی۔ میں نے شکاری کا شکار خراب کیا تھا اس لیے۔۔۔

اس لیے تم نے سارا کھانا اس منحوس شکاری کو دے ڈالا۔ بیوی اب کے خلاف ِمعمول آہستہ لہجے میں بولی: اچھااب ہاتھ منہ دھو کر باورچی خانے میں آ جاؤ۔ آلو بھن چکے ہوں گے۔

یا اللہ! ان عورتوں کو سمجھنا کتنا مشکل ہے۔ کرمو نے موزے اتارتے ہوئے سوچا۔

ابھی کھانا کھا کر دونوں میاں بیوی آتش دان کے پاس جا کے بیٹھے ہی تھے اور بچی کھچی لکڑیوں کو الٹ پلٹ رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ پہلے تو وہ سمجھے کہ یہ ہوا کی دستک ہے لیکن جب دوبارہ دستک ہوئی تو کرمو نے کہا:دیکھنا چاہیے، اس طوفانی رات ہمارے گھر کون آیا ہے؟شاید کوئی مسافر رستہ بھول گیا ہے۔

کرمو نے لکڑی کا دروازہ کھولا تو حیران رہ گیا۔ برف جیسے سفید اونی کپڑوں میں ملبوس ایک ننھی سی بچی کھڑی تھی۔

 کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟ لڑکی نے سردی سے کانپتے ہوئے پوچھا۔

آ جاؤ بیٹی، اندر آ جاؤ۔ کرمو نے محبت سے کہا۔

اتنے میں کرمو کی بیوی بھی سامنے آ گئی۔

کون ہے بھئی! کون ہے؟ اس نے آتے ہی تفتیش کی۔

میں ہوں، ماں جی! راستہ بھول گئی تھی۔ کیا میں کچھ دیر یہاں پناہ لے سکتی ہوں؟ بچی نے بڑی معصومیت سے کہا۔

کرمو کو ڈر تھا کہ کہیں اس کی بیوی خفا نہ ہونے لگے اور لڑکی سے فضول سوالات نہ شروع کر دے کہ اتنی رات گئے، ایسے موسم میں وہ باہر کیا کر رہی تھی،  اور کب تک ان کے گھر پڑی رہے گی، وغیرہ وغیرہ۔ وہ اس کے غصے سے بہت ڈرتا تھا مگر آج اس کی بیوی نے اسے دوسری بار حیران کیا۔

کیوں نہیں میری بچی، ضرور، ضرور آؤ۔ یہ تمھارا ہی تو گھر ہے۔

کرمو ہکا بکا اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا جس نے کرمو کو درمیان سے بالکل ہٹا کر بچی کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔ وہ اس کے بالوں میں اٹکی ہوئی برف ہٹا رہی تھی۔ وہ بچی کو باورچی خانے میں لے گئی اور اس کے لیے آلو گرم کیے اور تھوڑی دیر بعد وہ بچی کو ساتھ بٹھا کر بڑی محبت سے کھانا کھلا رہی تھی۔

یا اللہ! ان عورتوں کو سمجھنا کتنا مشکل ہے۔ کرمو نے آج دوسری بار سوچا۔

تھوڑی دیر بعد بچی کو اپنے بستر پر سلا کر وہ آتش دان کے پاس آ گئی۔

تم نے تو بھئی کمال ہی کر دیا آج۔ کرمو سے نہ رہا گیا۔

بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا مگر آتش دان کی روشنی میں کرمو نے دیکھ لیا کہ اس کی پلکوں پر آنسوؤں کے قطرے چمک رہے ہیں۔ کرمو افسردہ ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی کو بے اولاد ہونے کا بہت دکھ ہے۔ یہ جھگڑالو، دکھی، بدزبان عورت اس وقت اسے بہت اچھی لگی۔

اس رات صبح تک برف باری ہوتی رہی۔

صبح بھی تھوڑی ہی دیر کے لیے برف باری رکی تھی۔ کچھ دیر میں پھر چاروں طرف روئی کے گالے سے بکھرنے لگے۔ جیسے ساری دنیا کو کسی نے سفید رنگ سے رنگ دیا ہو۔

ننھی بچی سارہ برف باری رکنے کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی، موسم کسی طرح قابو ہی میں نہ آتا تھا۔ وہ بوڑھے میاں بیوی کی غربت پر بھی بہت اداس تھی۔ وہ دیکھتی کہ کس طرح دونوں اپنے اپنے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا کھانا بچا کر اس کی خاطر مدارت میں مصروف رہتے ہیں۔ خدا خدا کر کے برف باری بند ہوئی تو سارہ نے کرمو اور اس کی بیوی سے جانے کی اجازت مانگی۔ سارہ نے دیکھا، کرمو کی بیوی کا چہرہ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کی طرح سفید پڑ گیا اور کرمو تیزی سے اپنے ناخن کترنے لگا۔ وہ پریشانی کے وقت اکثر ایسا ہی کیا کرتا تھا۔

بیٹی! ہمارے پاس رہنے میں تمھیں کیا کوئی تکلیف ہے؟ کچھ دیر خاموشی کے بعد کرمو نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔

سارہ نے کچھ کہنا چاہا مگر کرمو کی بیوی تیزی سے اٹھی اور باورچی خانے میں جا کر اپنے بازوؤں میں سر دے کر رونے لگی۔ سارہ کا دل کٹ گیا۔ اس نے چپ چاپ اپنا اونی کنٹوپ واپس کھونٹی پر لٹکا دیا۔ کرمو مسکرا دیا۔ سارہ نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ برف پگھل رہی تھی اور سبز گھاس آہستہ آہستہ سر اٹھا رہی تھی۔

اب دو چار دن کی بات تو تھی نہیں۔ سارہ نے سوچا، مجھے یہاں اب نہ معلوم کب تک رہنا پڑے۔ مجھے ان دونوں کی مدد کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس نے کرمو سے کہا کہ وہ دونوں اب آرام کریں، کپڑا اب وہ بُنا کرے گی مگر اس کی ایک شرط ہے، جب تک وہ کپڑا بُنتی رہے گی، اس کے کمرے میں کوئی نہیں جھانکے گا۔

اس روز ساری رات سارہ کپڑا بُنتی رہی، ساتھ ہی اس کے گنگنانے کی آواز بھی آتی رہی جیسے دھیرے دھیرے ندی بہہ رہی ہو۔ کرمو اور اس کی بیوی کو بے چینی کے مارے ساری رات نیند نہیں آئی کہ آخر وہ کیسا کپڑا ہے جسے بُنتے ہوئے دیکھنا منع ہے اور جس کی تیاری میں سارہ اتنی خوش ہے کہ گیت گا رہی ہے۔

صبح سارہ جو کپڑا ان کے کمرے میں لے کے گئی، اسے دیکھتے ہی دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

ارے اتنا عمد ہ کپڑا! یہ تتلی کے پَروں جیسا نرم و ملائم کپڑا تم نے بُنا ہے؟ کرمو کی بیوی نے خوشی سے بے قابو ہو کر سارہ کو گلے سے لگا لیا۔ کرمو فوراً وہ کپڑا لے کے تیز تیز قدم اٹھاتا کسی بڑی دکان کی طرف جا رہا تھا کہ پچھلی بار والے دکان دار نے اسے دیکھ لیا جس نے اسے پچاس کے بجائے پندرہ روپے تھما دیے تھے۔ تھیلے کے پھٹے ہوئے حصے سے دکان دار کو خوب صورت کپڑا نظر آ گیا۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا مگر اس نے بڑی رکھائی سے کرمو کو آواز دے کر کہا:آؤ بھئی! دیکھوں، تمھاری کیا مدد کی جا سکتی ہے۔

کرمو کا دل تو نہیں چاہا کہ اس بدتمیز آدمی سے کوئی سودا کرے لیکن اسے یاد آیا کہ پچھلی بار شدید مصیبت میں جب کسی بڑے دکان دار کے پاس جانے کی اس میں ہمت نہ تھی، اسی شخص نے اس سے کپڑا خریدا تھا، سو وہ چپ چاپ اس کے پاس چلا گیا اور اس کے سامنے کپڑا پھیلا دیا۔ دکان دار کو ایسا لگا جیسے اس کے سامنے ریشم کی آبشار گر رہی ہو۔

یہ۔۔۔ یہ کپڑا تم نے بُنا ہے؟ دکان دار نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

نہیں۔۔۔  میری بیٹی نے۔ کرمو نے فخریہ جواب دیا۔

اچھا! یہ بتاؤ اس کی کتنی قیمت لو گے؟

دو سو روپے۔ کرمو نے جھجکتے ہوئے کہا۔

میں تمھیں چار سو روپے دوں گا، لیکن ایک شرط ہے۔

کرمو کچھ دنوں سے عجیب و غریب شرطیں سننے کا عادی ہو گیا تھا اور اس میں کوئی ایسا نقصان بھی نہ تھا، سو اس نے نرمی سے پوچھا: وہ کیا؟

تمھاری بیٹی اب جو بھی کپڑے بُنے گی، تم اسے صرف میرے ہاتھ بیچوگے اور اس کے لیے تمھیں خود بھی آنے کی ضرورت نہیں۔ میرا نوکر ہر ہفتے تمھارے گھر سے کپڑا وصول کر لیا کرے گا۔

کرمو کا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا۔ دکان دار کی تجویز بھی خاصی معقول تھی۔ بازار آنے جانے میں سارا دن لگ جاتا تھا۔ اوپر سے ٹھگوں کا ڈر الگ تھا۔ اس طرح وہ گھر رہ کر اپنی مرغیوں پر بھی کچھ دھیان دے سکتا تھا، سو اس نے ہاں کر دی۔

دکان دار نے فوراً چار سو روپے اسے تھما دیے جنھیں کرمو نے اپنی واسکٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔ سارے رستے وہ ہاتھ لگا لگا کر اطمینان کرتا رہا کہ روپے جیب ہی میں موجود ہیں، کہیں گر تو نہیں گئے۔ کرمو نے زندگی میں کبھی اتنے روپے اکٹھے نہیں دیکھے تھے۔

گھر پہنچا تو اس کی بیوی کھل اٹھی۔ دونوں سارہ کے بہت شکر گزار ہوئے اور اس کے آرام کا پہلے سے زیادہ خیال کرنے لگے۔ سارہ روز رات کو اپنا کمرہ بند کر کے کپڑا تیار کرتی رہی۔ دکان دار کا آدمی ہر ہفتے آ کر کرمو سے کپڑا لے جاتا اور اس کے بدلے ڈھیروں روپے دے جاتا۔ اچھی غذا اور آرام سے اب دونوں میاں بیوی کے چہرے چمکنے لگے تھے۔ انھوں نے پچھلی طرف کا صحن بھی ذرا اور بڑا کر لیا۔ ان کے احاطے میں مرغیاں بھی زیادہ نظر آنے لگیں۔ کرمو کی بیوی تو ایک گائے خریدنے کے متعلق بھی سوچنے لگی تاکہ دودھ مکھن کا بھی آرام ہو جائے۔

ایک رات جب گھر کے سب لوگ تلی ہوئی مچھلی اور مٹر کھانے کے بعد کافی پیتے آتش دان کے پاس بیٹھے تھے۔ کرمو نے اپنی بیوی سے کہا:یہ سارہ آج اپنے کمرے میں اتنی جلدی کیوں چلی گئی؟

اس پر تو کام کی دھن سوار ہے۔ بیوی نے پیار بھرے غصے سے کہا۔ ابھی وہ عادتاً کچھ اور کہتی کہ دونوں کی توجہ سارہ کے کمرے سے آتی ہوئی آواز سے لگ گئی۔ یہ گیت تویقناً سارہ ہی کا تھا مگر آواز میں اتنی نقاہت کیوں تھی؟ دونوں نے ایک دوسرے کو فکر مندی سے دیکھا۔

کرمو کی بیوی سوچ رہی تھی کہ سارہ روز بروز زرد ہوتی چلی جا رہی ہے اور کھڈی کی آواز بھی کئی دن سے بہت آہستہ ہوتی ہے۔

کبھی تم نے سوچا کہ سارہ نے ہمیں اپنے کمرے میں جھانکنے سے کیوں منع کیا؟کرمو کی بیوی نے تجسس سے پوچھا۔

کرمو سے اس کی بیوی پہلے بھی یہ سوال کئی بار کر چکی تھی، مگر اس نے اسے ہمیشہ عورتوں کی ٹوہ لینے والی عادت سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔ آج البتہ اس کی بیوی کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ وہ بھی پریشان ہو گیا۔

چلو، آج چپکے سے جھانک کر دیکھتے ہیں۔بیوی نے کرمو کے چہرے کے تاثرات پڑھ لیے تھے۔ دونوں بلی کی طرح دبے پاؤں سارہ کے کمرے کی طرف گئے اور دروازہ ذرا سا کھول کر اندر جھانکا۔

ارے! کرمو کی بیوی کے منہ سے بے ساختہ ایک چیخ نکلی۔ کمرے کے اندر کھڈی کے قریب ایک کونج بیٹھی اپنے پَروں کو اپنی چونچ سے الگ کرتی جاتی تھی اور پھر ان پَروں سے کپڑا بُنتی جاتی تھی۔

صبح انھوں نے سارہ کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر کوئی نہیں تھا۔ کمرے میں اِدھر اُدھر کچھ سفید پَر بکھرے پڑے تھے۔ انھیں اپنی وعدہ خلافی پر افسوس ہو رہاتھا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

آپ تو جان گئے نا کہ سارہ کون تھی؟

(ایک جاپانی کہانی سے ماخوذ)

شیئر کریں
23