محمد عمران (بہاول نگر)
پیارے بچو! کسی گاؤں میں ایک ظالم بردہ فروش رہتا تھا ۔ وہ چھوٹے بچوں کو اغوا کرتا اور انہیں جنگل میں لے جاتا اوربے رحمی سے ان کے جسمانی اعضاء یعنی دل ، گردے اور آنکھیں وغیرہ نکال کر ان کو مہنگے داموں فروخت کردیتا ۔ ایک دن وہ معمول کے مطابق بچے اغواء کرنے کے لیے اپنے ٹھکانے سے نکلا ، اچانک اس کی نظر ایک معصوم بچی پر پڑی ۔ اس نے اسے کھانے کے لیے نشہ آور ٹافی دی جسے کھاتے ہی بچی بے ہوش ہو گئی۔ ظالم بردہ فروش نے فوراً بے ہوش بچی کو تھیلے میں بند کیا اور جنگل کی جانب نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں اس کا گزر ایک بستی سے ہوا۔ اتنے میں بچی کو ہوش آگیا اور اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا ۔ ایک رحم دل راہ گیر نے تھیلے میں بند بچی کی چیخ و پکار سنی تو اسے شک گزرا ۔ اس نے بردہ فروش سے بچی کی چیخ و پکار کے حوالے سے استفسار کیا تو اس نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ رحم دل راہ گیر اس کی باتوں میں نا آیا اور اس نے شور مچانا شروع کردیا ۔ وہاں کئی لوگ جمع ہوگئے۔ انہوں نے بردہ فروش کو گھیر لیا اور اس کے تھیلے کی تلاشی لے کر بچی کو بازیاب کروا لیا ۔ علاقے کے لوگ بردہ فروش کو گاؤں کے سردار کے پاس لے گئے ۔ سردار نے حکم دیا کہ اس شخص کو چوک میں لٹکا دیا جائے اور اس کے جسمانی اعضا ء کاٹ دیے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی بھی اس طرح کے ظلم کا نہ سوچ سکے۔ سچ ہے کہ برے کام کا نتیجہ بھی برا ہوتا ہے۔