شانزہ شفیع (لیہ)
اگلے سوموار سے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سمرا نشیب شمالی لیہ میں جوش و جذبے کے ساتھ ہفتہ شجرکاری منانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اس موقع پر سب بچوں کو ایک ایک پودا لگانے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ مجھ سمیت کچھ بچیاں تو کافی گرم جوش تھیں۔ اسی طرح کچھ بچوں کا کہنا تھا کہ بس سکول والوں کو ان کا خرچہ کروانے کا شوق ہے۔ ایک دن ہماری کلاس میں ہونے والی یہ بحث مس ذکیہ غفار نے سن لی ۔ دوسرے دن وہ ہماری کلاس کو ابتدائی پندرہ منٹ پڑھانے کے بعد کتاب بند کرکے ہم سے مخاطب ہوئیں کہ اگلے ہفتے شجرکاری مہم ہے، میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ درختوں کا کیا فائدہ ہے؟ ہم یہ ہفتہ کیوں منا رہے ہیں؟ مس ! درختوں سے ہمیں سایہ ملتا ہے، یہ ہمیں آکسیجن دیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ میں نے ہاتھ کھڑا کر کے فوراً رٹا ہوا جواب دیا۔ مس ذکیہ غفار کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ ہم درختوں کی لکڑی سے تیار شدہ کون کون سی چیزیں استعمال کرتے ہیں؟ مس! یہ دروازہ لکڑی کا بنا ہوا ہے ، یہ فرنیچر لکڑی سے بنتا ہے۔ اس بار شازیہ نذر نے جواب دیا۔ مس ذکیہ غفار نے طالبات کو سمجھایا کہ کچی پنسل، کاپیاں اورکتابیں، یہ سب ہی لکڑی سے بنتی ہیں اور ٹشوپیپر بھی درخت سے بنتا ہے۔ آدھی آکسیجن درختوں سے اور آدھی سمندروں کے پانی سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر ہم درخت کاٹتے رہے اور مزید شجرکاری نہ کی تو ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ مس ذکیہ غفار کی بات سے بچے افسردہ نظر آنے لگے تو مس نے سمجھایا کہ جو پودے ہم آج لگائیں گے تو وہ کچھ سالوں میں درخت بن جائیں گے، اس پر بچے جھولا جھولیں گے، ہمارے بزرگ ان کی چھاؤں میں بیٹھیں گے۔ یہی چیز آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے گی۔ بچوں کی آنکھوں کی چمک اور مس ذکیہ غفار کے چہرے کا سکون آنے والے سرسبز مستقبل کی داستان سنا رہا تھا۔