عبدالرحمٰن چشتی (ڈیرہ غازی خان)
جویریہ بہت اچھی بچی تھی لیکن اس میں ایک عادت بہت بری تھی کہ وہ دوسروں پر بلا سوچے سمجھے الزام لگا دیتی تھی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، وہ اپنی پنسل لینے اپنے کمرے میں آئی، الماری میں دیکھا تو پنسل نظرنہ آئی۔ اسی اثنا میں وہاں سے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کی دس سالہ بیٹی گزری تو پنسل چوری کا الزام اس پر لگا دیا اور چیخ کر کہنے لگی کہ تم نے میری پنسل غائب کر دی ہے۔ اب دوبارہ میرے کمرے کی صفائی نہ کرنا۔ ہر چیز الٹ پلٹ کر کے رکھ دیتی ہو۔ وہ بے چاری روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ جویریہ کی اس عادت کی وجہ سے اس کے والدین بہت پریشان تھے۔ امی نے کئی مرتبہ سمجھایا، ابو نے ڈانٹا پر سب بے سود۔ اس کی یہ عادت نہ چھوٹ سکی۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ جویریہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی اپنی کھلونے والی گڑیا سے کھیل رہی تھی۔ اس کے ساتھ صوفے پر دادی اماں قرآن مجید پڑھ رہی تھیں۔ نیچے فرش پر اس کا بھائی جلال اپنے کھلونوں سے کھیلنے میں مگن تھا۔ جویریہ کمرے سے باہر گئی اور تھوڑی دیر بعد جب واپس آئی تو اس کی گڑیا وہاں نہیں تھی، جہاں وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ وہ شور مچانے لگی: اس جلال کے بچے نے میری گڑیا گم کی ہے، ہر وقت میری چیزیں اِدھر اُدھر کرتا رہتا ہے۔ جلال روتا ہوا امی کے پاس چلا گیا۔ کچھ دیر بعد جویریہ اپنا منہ پھلائے صوفے پر بیٹھی تھی تو اس کی بہن نے کہا: ارے جویریہ! وہ دیکھو تمہاری گڑیا صوفے کے نیچے پڑی ہے۔ خوامخواہ تم نے جلال کو ڈانٹا۔ جویریہ بہت زیادہ شرمندہ ہوئی۔ اس نے اپنی گڑیا اٹھا لی۔ دادی جان نے اسے اپنے پاس بلایا اور پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا: ہمیں اس طرح دوسروں پر الزام نہیں لگانا چاہیئے۔ پہلے ہمیں اپنی چیز اچھی طرح سے تلاش کرنی چاہیئے۔ جاؤ، اب جلال سے معافی مانگو۔ جویریہ نے عہد کیا کہ وہ آئندہ کبھی کسی پر الزام نہیں لگائے گی۔