میرزا ادیب

اس روز پروفیسر رحمت علی کے گھر میں بڑی رونق تھی۔  ڈاکٹر صاحب کے اپنے کنبے کے تو صرف تین افراد تھے۔ خود، اُن کی بیگم اور گھر کا تیسرا فرد تھا اُن کی اکلوتی بیٹی فردوس۔۔۔ ان سے بھلا گھر میں کیا چہل پہل ہو سکتی ہے؟ اس لیے یہاں عام طور پر اُداسی ہی رہتی تھی، البتہ کہیں سے مہمان آجاتے تھے تو چند گھنٹوں کے لیے اُداسی دُور ہو جاتی اور اُس دن جو صبح سے ڈاکٹر صاحب کے گھر میں ہنگامہ برپا تھا تو یہ اس و جہ سے تھا کہ اُن کی چھوٹی بہن اپنے چھ بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ یہ بہن تو ڈاکٹر صاحب کی بیگم سے باتیں کر رہی تھی اور سارے بچے کوٹھی کے اندر خوب صورت باغ میں کھیلتے ہوئے  شور مچا رہے تھے۔

فردوس یونی ورسٹی میں لیکچرر تھی۔ یونی ورسٹی سے واپس آ کر وہ زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارتی تھی۔ اُسے مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ اپنے کمرے میں اُسے مطالعے کی پوری پوری سہولت حاصل تھی مگر گھر میں مہمان بچے آتے اور وہ شور مچاتے تو بُرا نہیں مانتی تھی بلکہ بچوں کو خوش دیکھ کر خود بھی خوش ہو جاتی تھی۔

باغیچہ اس کے کمرے کے سامنے واقع تھا۔ اُس نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ بچوں کے شور وغُل میں دھیان سے مطالعہ نہیں کر سکتی اس لیے کتاب ایک طرف رکھ کر وہ کرسی پر کھڑکی کے سامنے بیٹھ گئی تھی اور بچوں کو طرح طرح کے کھیلوں میں مصروف دیکھ کر لطف اُٹھا رہی تھی۔ اچانک اُسے یاد آیا کہ رات اپنی سہیلی سے باتیں کرتے ہوئے وہ اپنا پرس ڈرائنگ روم میں بھول آئی تھی۔

پرس کا خیال آیا تو وہ اُٹھ کر ڈرائنگ روم میں جانے لگی۔ پرس وہاں نہیں تھا جہاں اُس نے رکھا تھا۔ اِدھر اُدھر صوفوں پر نظر ڈالنے کے بعد اُسے اپنا پرس تپائی پر دکھائی دیا۔ وہ تپائی کی طرف بڑھی اور پرس اُٹھا کر دوبارہ اپنے کمرے میں آگئی۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اُس کی نظر بچوں پر پڑی تو اُس نے دیکھا کہ سب کے سب جھک کر ایک پودے کے نیچے کسی چیز کی تلاش میں لگے ہیں۔

یہاں کیا چیز پڑی ہے جسے ڈھونڈ رہے ہیں، شاید گیند ہو گی لیکن گیند سے تو یہ کھیل ہی نہیں رہے تھے پھر یہ کیا شے ہے؟

کیا ہے افشاں؟ اُس نے بچوں کی بڑی بہن کو مخاطب کر کے کہا۔

افشاں نے آواز سُن لی تھی اور اُس نے جواب بھی دیا تھا جو فردوس سن نہیں سکی تھی۔

فردوس نے دوبارہ پوچھنے کے بجائے یہ بہتر سمجھا کہ خود باغ میں جا کر حقیقت معلوم کرے۔ چناں چہ وہ اپنے کمرے سے باہر آ کر باغ کی طرف جانے لگی۔

بچوں نے اُسے آتے دیکھا تو ایک طرف ہٹ کر ادب سے کھڑے ہو گئے۔

کیا ڈھونڈ رہے ہو بچو

یہ جی! افشاں نے ایک ننھی سی رنگین شے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اُسے دکھائی۔

باجی! میں نے تتلی کو پکڑ لیا تھا، لیکن وہ نکل گئی۔ افشاں نے بتایا۔

اور یہ کیا ہے؟ فردوس نے پوچھا۔

اُس کا پَر ہے، خود نہ جانے تتلی پودے میں کہیں گم ہو گئی ہے۔

اتنا سننا تھا کہ فردوس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ فوراً آگے بڑھ کر افشاں کے شانے کو اس زور سے دبایا کہ افشاں کی چیخ نکل گئی۔

تمھارا شانہ ذرا دبایا ہے تو چیخ اُٹھی ہو۔۔۔ اُس معصوم کو اَدھ موا کر دیا اور گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ شرم نہیں آئی بے چاری تتلی کو معذور کرتے ہوئے، اب وہ اُڑے گی کیسے؟ بتاؤ نا اب کیسے اُڑے گی وہ؟

فردوس کا ایک تو چہرہ غصے سے ڈراؤنا ہو گیا تھادُوسرا اُس نے یہ لفظ بڑے تلخ لہجے میں کہے تھے۔ سارے بچے ڈر کر کچھ پیچھے ہٹ گئے، جب کہ افشاں کے منہ سے تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔

افشاں کو ڈر سے زیادہ حیرت ہو رہی تھی کہ فردوس باجی نے ہمیشہ اس سے بڑا پیار کیا تھا اُسے ہر کام یابی اور عیدین پر خوب صورت اور قیمتی تحفے دیے تھے وہ حیران وپریشان کھڑی تھی۔

اندر جاؤ۔۔۔  تم اس قابل نہیں ہو کہ یہاں کھیلو۔۔۔  کتنا ظلم کیا ہے تم نے تتلی پر۔ یہ کہہ کر فردوس گھومی اور واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔وہ کرسی پر جا بیٹھی مگر جلد ہی اُٹھ گئی، ایک دیوارسے دُوسری دیوار تک گئی۔ کھڑکی کے سامنے پہنچی بچے ایک دائرے کی صورت میں بیٹھے اس طرح باتیں کر رہے تھے جیسے سرگوشیاں سی کر رہے ہوں۔  افشاں پودے کی ایک ٹہنی کو اپنے ایک ہاتھ میں تھامے بیٹھی تھی اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔

فردوس کھڑکی سے ہٹ کر دوبارہ کرسی کی طرف آئی اور اپنے ہاتھ اُس کی پشت پر رکھ کر کچھ سوچنے لگی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ درست ہے یا غلط۔

دو تین منٹ اسی حالت میں گزر گئے۔

باجی جی

آواز سن کر اُس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ افشاں کھڑی تھی۔

باجی! میں آجاؤں؟

اُس نے سر کے اشارے سے افشاں کو اندر آنے کی اجازت دی۔

افشاں دھیرے دھیرے اس کے پاس آکر رُک گئی۔

باجی! میں۔۔۔۔

افشاں نے اپنا فقرہ مکمل نہ کیا اور فردوس نے اپنے سر کو اس انداز سے جنبش دی جیسے کہنا چاہتی ہو میں جانتی ہوں تمھارے دل میں کیا ہے۔ فردوس نے افشاں کا ہاتھ پکڑ لیا اور اُسے صوفے کی طرف لے چلی۔ دونوں ایک دُوسرے سے کچھ کہے بغیر پاس پاس بیٹھ گئیں۔

باجی! میں شرمندہ ہوں اپنی حرکت پر۔۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ کو دُکھ ہواہے۔ آپ تو بہت ہی اچھی باجی ہیں آپ نے کبھی مجھ پر غصّہ نہیں کیا۔

افشاں کا ہاتھ ابھی تک فردوس کے ہاتھ میں تھا جسے وہ دبانے لگی تھی۔

مجھے دُکھ ہوا تھا اس لیے سخت لفظ کہہ دیے۔ فردوس بولی۔

معاف کر دیجیے نا باجی

فردوس نے افشاں کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے ہاتھ سے اس کا شانہ تھپتھپانے لگی۔

باجی! شاید کوئی بات ہے اگر آپ یہ بات بتا دیں تو باجی میں بہت ممنون ہوں گی۔

یقینا ایک بات ہے۔

افشاں نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ اُٹھی، کھڑکی کے قریب دیوار میں جو الماری تھی اس کا ایک پٹ کھولا اور اس میں سے ایک کتاب لے کر واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئی۔

یہ دیکھو۔ فردوس نے کتاب کھولی ایک صفحے پر تتلی کا ایک سفید پر لگا ہوا تھا۔

دیکھ رہی ہو؟جی باجی

فردوس چند لمحے خاموش رہی۔ کتاب بند کر کے صوفے کے بازو پر رکھ کر کہنے لگی۔

میں جب تمھاری عمر کی تھی تو اپنی سہیلیوں کے ساتھ تتلیوں کے پیچھے بھاگا کرتی تھی۔ بڑی کوشش کے باوجود کوئی تتلی میرے ہاتھ نہیں آتی تھی۔ میری ناکامی پر میری سہیلیاں ہنس دیا کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ میں نے ایک پھول پر ایک بالکل سفید تتلی دیکھی، ارادہ کر لیا کہ اُسے پکڑ کر ہی چھوڑوں گی۔ اس وقت میرے پاس کوئی نہیں تھا۔ میں دبے پاؤں آگے بڑھتی گئی یہاں تک کہ پھول کے بالکل قریب پہنچ گئی۔ آہستہ سے ہاتھ بڑھایا اور اُسے پکڑ لیا۔ وہ تڑپی اُس کا پَر میرے ہاتھ میں رہا اور وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔

مجھے اپنی ناکامی پر افسوس ہوا لیکن میں نے اُس کا پَر تو اپنے قبضے میں کر ہی لیا تھا۔ یہ پَر میں مٹھی میں بند کر کے اپنے کمرے میں لے آئی اور اُسے کتاب میں رکھ دیا۔ فردوس سانس لینے کے لیے رُکی اور پھر دوبارہ کہنا شروع کیا۔

دسویں جماعت کا نتیجہ نکلا تو میں نے اچھے نمبروں کے ساتھ امتحان پاس کر لیا۔ مجھے ایسی خوشی ہوئی کہ پھولی نہیں سماتی تھی۔ اس حالت میں سیڑھیوں سے نیچے اُترنے لگی تو نہ جانے کس طرح دُوسری تیسری سیڑھی پر ہی پاؤں پھسل گیا اور میں دھڑام سے آخری سیڑھی سے نیچے جا گری۔ دھماکے کی آواز سن کر ابا امی بھاگے بھاگے آئے۔

چوٹوں کی وجہ سے میں بے ہوش ہو گئی۔ ڈاکٹر آیا اُس نے معاینہ کیا، ہوش آنے کے بعد درد کے مارے میرا بُرا حال تھا۔ جگہ جگہ چوٹ آئی تھی۔ سب سے زیادہ درد میرے شانے میں ہو رہا تھا جو بُری طرح زخمی ہو گیا تھا۔

اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی ساری خوشی خاک میں مل گئی۔ اب میں تھی اور رات دن پلنگ۔ چلنا پھرنا موقوف۔۔۔۔  ہر وقت لیٹی رہتی تھی۔ دن گزرتے گئے اور میری حالت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی ، اس دوران میں ہر روز عزیز، رشتہ دار، میری سہیلیاں میری تیمارداری کرتی رہیں۔ میں ان سب چہروں کو اچھی طرح پہچانتی تھی مگر کبھی کبھی ایک ایسا چہرہ بھی دکھائی دے جاتا تھا جسے میں نہیں پہچان سکتی تھی۔ لگتا تھا اُسے میں نے پہلے یا تو کبھی دیکھا ہی نہیں ہے اور دیکھا بھی ہے تو بھول گئی ہوں۔

یہ ایک لڑکی تھی عمر میں مجھ سے چھوٹی، سفید لباس پہنے ہوئے، اس وقت آتی تھی جب میرے پاس کوئی تیماردار نہیں ہوتا تھا۔ بڑی خوش دلی سے مجھے دودھ پلاتی رہتی، سیب کاٹ کر دیتی تھی، دوا کے وقت دوا پلاتی تھی۔

میں نے کئی بار چاہا کہ اس سے پوچھوں کہ آپ کا نام کیا ہے؟ مگر یہ سوچ کر نہ پوچھ سکی کہ کہے گی ہر روز آتی ہوں اور یہ میرا نام ہی نہیں جانتی۔

ایک شام میرے شانے میں بڑا درد محسوس ہو رہا تھا۔ درد کی شدت سے میں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ یکایک قریب سے اس لڑکی کی میٹھی سی آواز سنائی دی

سو رہی ہیں آپ؟

نہیں۔۔۔  شانے میں بڑا درد ہے۔

اوہو۔۔۔  شانے کا درد ہوتا ہی بڑا سخت ہے۔

اُس کی آواز میں ایسا درد بھرا تھا کہ میں نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں اور۔۔۔۔

فردوس خاموش ہو گئی۔  افشاں جو بڑی توجہ سے اُس کے الفاظ سن رہی تھی بولی: اور ۔۔۔  باجی؟

فردوس کے ہونٹ حرکت میں آ گئے۔

میں نے دیکھا کہ اُس لڑکی کا پورا بازو غائب ہے۔ یک لخت مجھے اس تتلی کا خیال آگیا جس کا ایک پَر میں نے نوچ ڈالا تھا۔ مجھے لگا کہ یہ وہی تتلی ہو گی۔

اوہ… میرے اللہ! افشاں کے منہ سے نکلا۔

فردوس نے آنکھیں بند کرلیں اور جب کھولیں تو اُس کی پلکیں بھیگی ہوئی لگتی تھیں۔ اُس وقت اُس نے مجھے جن نظروں سے دیکھا تھا وہ نظریں میں آج تک نہیں بھول سکی اور نہ کبھی بھول سکوں گی۔ فردوس نے گلوگیر آواز میں کہا۔

اب افشاں کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپک پڑے تھے۔

شیئر کریں
102
3