فاطمہ آصف (بہاول نگر)
میں نے کم وبیش ڈیڑھ سال قبل اپریل کی ایک سہانی صبح کو گھاس پھونس کے ایک گھونسلے میں آنکھ کھولی ۔ میرے اردگرد ٹوٹے ہوئے انڈوں کے چھلکے اور چار بھائی بہنوں کے وجود پڑے تھے ۔ میں نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ہمارا گھونسلا ایک کمرے کی دیوار میں ایگزاسٹ فین کے لیے چھوڑی ہوئی جگہ میں تھا۔ والدین نے پنکھے کی غیر موجودگی میں اس جگہ کو مصرف میں لا کر ہماری زندگی کاسامان فراہم کیا تھا ۔ میں ولادت کے وقت خاصی کمزور تھی ۔ بھوک محسوس ہوئی تو میں چوں چوں کرنے لگی۔ امی نے میرے منہ میں ایک سنڈی ڈال دی۔ مجھے اور طلب ہوئی تو میں شور مچانے لگی۔ بس پھر کیا تھا، والد ین باری باری کھیتوں میں جانے لگے اور کیڑے مکوڑے لا لا کر مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو کھلانے لگے ۔ والدین کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ہم پھڑ پھڑاتے پروں کے ساتھ واویلا کرتے تھے ۔ یہ امی ، ابو کا حوصلہ تھا کہ چونچوں میں سنڈ یاں دبا دبا کر لاتے اور ہمیں سارا سارا دن کھلاتے رہتے ۔ نہ معلوم بے چارے خود بھی کچھ کھاتے تھے یا ہمارے پیٹ کا دوزخ ہی بھرتے تھے۔ مجھےجب بھی والدین کی مشقت یادآتی تو میں طلب کے باوجود خاموش رہتی لیکن بہن بھائی تھے کہ خاموش ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ کچھ دنوں بعد میرے پر اگ آئے تھے اور میں انہیں پھڑ پھڑانے لگی تھی ۔ میں نے اپنے اور بھائی بہنوں کے پیروں کی رنگت سے اندازہ لگا لیا تھا کہ ہم تین بہنیں اور دو بھائی ہیں ۔ آپ سوچیں گے کہ اتنی چھوٹی عمر میں ، میں نے بھائی بہنوں کی تخصیص کیسے کر لی۔ بھلا یہ بھی کوئی مشکل کام تھا، بہنوں کے پر امی جیسے جب کہ بھائیوں کے ابو جیسے تھے۔ پھر امی نے بھی بتادیا تھا کہ آپ بہنیں ہیں اور یہ بھائی ہیں۔ہم لوگ ذرا بڑے ہوئے تو والدین ہمیں خوراک کی تلاش میں دور کھیتوں میں لے جانے لگے۔ ماں نے پہلے ہی سنڈیاں پکڑنے کا طریقہ بتادیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ سنڈی پکڑی تھی تو ماں کی خوشی کی انتہا نہ رہی تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ میں سنڈیاں آسانی سے پکڑ لیتی تھی جب کہ دیگر کیڑے مکوڑے قابو میں نہ آتے تھے ۔ میں کوشش کے باوجود انہیں پکڑنے میں ناکام رہتی۔ ایسے میں والدین حوصلہ افزائی کرتے تو ایک آدھ کیڑا پکڑ ہی لیتی تھی ۔میری عمر کوئی چار ماہ کی ہوگی کہ جب والدین مجھ سے پیچھا چھڑانے لگے۔ دیگر بہن بھائی پہلے ہی گھر سے جا چکے تھے۔ میں بیماری کےسبب اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوئی تھی، اس لیے مجھے کچھ دن کی مہلت دے دی گئی تھی ۔ پھر اچا نک والدین کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ وہ مجھے گھونسلےسے دھکے دینے لگے۔ابوزورزور سے چونچیں مارتے تھے۔ یہ شاید اس لیے تھا کہ ماں نے انڈے دینا شروع کر دیے تھے ۔ وہ مجھے نکال کرانہیں سینا چاہتے تھے۔ ناچار مجھے گھر چھوڑنا پڑااور میں نے ایک چڑے سے جلد ہی شادی کر لی۔ گھونسلے کی فکر ہوئی تو میں نے والدین کے بالمقابل ایک محفوظ جگہ تلاش کر لی ۔ ہم نے وہاں گھاس پھونس جوڑنا شروع کر دیا مگر گھر کی مالکن پیچھے پڑ گئی ۔ اس نے گھونسلا اتار کر ہماری محنت پر پانی پھیر دیا۔ ہمیں مجبوراً ساتھ والے گھر میں نیا گھونسلا بنانا پڑا۔ پیارے بچو! ہماری دنیا ایسی ہی ہے ،ایک وقت کے بعد ہمیں سب خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے۔ یہی میری زندگی ہے۔